آسمان پر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے دروازہ کھٹکھٹایا اور دروازہ کھولنے کا کہا تو فرشتوں نے کہا: کون ہے؟ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اپنا نام بتلایا۔ پھر انھوں نے پوچھا کہ آپ کے ساتھ کون ہے؟ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔ انھوں نے پھر پوچھا: کیا انھیں رسول بنا دیا گیا ہے؟ تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا: ہاں، تب انھوں نے دروازہ کھول دیا۔ آسمان کے نیچے سے دروازوں پر کھڑے فرشتوں سے یہ گفتگو اس بات کی دلیل ہے اجرامِ فلکی سماعت صوت سے مانع نہیں۔ اس لیے اگر شیاطین چھپ چھپا کر آسمان کے قریب پہنچ جاتے ہیں تو وہ فرشتوں کی آواز بھی سن لیتے ہیں۔ علامہ آلوسی نے مزید فرمایا ہے کہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ شیاطین کے استراق سے محفوظ کرنے کے لیے ہوسکتا تھا کہ اللہ تعالیٰ ان کے لیے اوپر جانا ناممکن بنا دیتے یا فرشتوں سے فرما دیتے کہ تم آہستہ کلام کیا کرو یا ان کی لغت وزبان ایسی کردیتے جو شیاطین سمجھ ہی نہ سکتے۔ اس کی بجائے شہاب ثاقب کا انتظام کیا گیا آخر کیوں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس میں ایک ابتلائی صورت ہے۔ صانع حکیم مطلق ہے اس کا کوئی فیصلہ حکمت سے خالی نہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے اس پر اس کی حکمت کی گرہ کھول دیتا ہے۔ امام قرطبی کے حوالے سے ہم یہ قول بھی ذکر کر آئے ہیں کہ ان آیات میں ﴿ إِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَةَ ﴾ کی جو استثنیٰ بیان ہوئی اس سے مراد وحی کے علاوہ فرشتوں کی باتیں مراد ہیں۔ عرب میں نزولِ قرآن کے وقت کہانت کا بڑا چرچا تھا۔ جگہ جگہ کاہن بیٹھے مستقبل کی خبریں بتلاتے تھے۔ گم شدہ اشیا کے بارے میں سچی جھوٹی خبریں دیتے اور لوگ اپنے معاملات میں ان سے راہنمائی لیتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب قرآنِ پاک میں ماضی کے قصص اور مستقبل کی پیش گوئیوں سے متعلق آیات پڑھ کر سنائیں اور یہ بھی فرمایا کہ مجھے ان باتوں کی اطلاع فرشتے کے ذریعے ہوئی |