Maktaba Wahhabi

64 - 438
ہے تو مشرکین مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کاہن کہنا شروع کردیا کہ ان کا بھی (معاذ اللہ) دوسرے کاہنوں کی طرح کسی شیطان سے تعلق ہے جسے یہ وحی کے نام سے ہمیں سناتے ہیں۔ ان کے اس اعتراض کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ شیطان کی تو ملأ اعلیٰ تک رسائی ہی ممکن نہیں جو چھپ چھپا کر اوپر جا کر کچھ سننے کی کوشش کرتے ہیں ہر طرف سے انھیں دھتکارا جاتا ہے اور ان پر شہاب پھینکے جاتے ہیں۔ وحیِ الٰہی تک ان کی دسترس ممکن ہی نہیں۔ اگر فرشتوں کی کوئی بات وہ اُچک لیں تو ان پر شہاب ثاقب برسائے جاتے ہیں۔ اس لیے وحی کا یہ سلسلہ بالکل محفوظ ہے، اس میں کسی کی دخل اندازی کا کوئی تصور نہیں۔ اس سے پہلے کی آیات میں جہاں یہ اشارہ تھا کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کے عبادت گزار بندے ہیں جو ہر وقت تسبیح وتحمید میں سرگرم ہیں۔ یہ عابد ہیں معبود نہیں۔ مگر مشرکوں نے انھیں معبود بنا رکھا تھا اسی طرح وہ شیاطین کو بھی پوجتے تھے اور سمجھتے تھے کہ یہ غیب کی خبریں جانتے ہیں۔ کچھ لوگ تو ورد وظیفوں کے ذریعے ان سے تعلق پیدا کرنے کی کوشش کرتے، اور شرکیہ اعمال کو اپنا کر انھیں خوش کرتے۔ اور وہی لوگ ان سے تعلق کی بنا پر مستقبل کی خبریں دینے کے دعوے دار بنتے تھے۔ انھی لوگوں کو کاہن کہا جاتا ہے جو جگہ جگہ بیٹھے لوگوں کی قسمتوں کو سنوارنے کے مدعی تھے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ان آیات میں شیاطین کے ان ساتھیوں کے دعوے کی قلعی کھول دی ہے۔ کہ ملأ اعلیٰ سے ان کا کوئی تعلق نہیں نہ یہ غیب کی خبریں جانتے ہیں یہ خبریں معلوم کرنے کے لیے اوپر جاتے ہیں تو ہر طرف سے ان کا تعاقب ہوتا ہے ان پر بھڑکتے شعلے برسائے جاتے ہیں۔ یہ اگر کچھ سن بھی لیں تو ان کے چیلے سو جھوٹ ملا کر آگے خبریں پھیلاتے ہیں۔ گویا قرآنِ پاک نے یہاں فرشتوں اور شیاطین جنوں کی حقیقت بیان فرما کے ان دونوں کی پوجا پاٹ کا سدِّ باب کردیا ہے۔
Flag Counter