چیز جو تمھارے اور آسمان کی خبر کے درمیان حائل ہوگئی ہے۔ وہاں سے وہ اپنی قوم کے پاس واپس آئے اور انھیں کہا: اے ہماری قوم! بے شک ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے جو سیدھے راستے کی ہدایت کرتا ہے۔ ہم اس پر ایمان لائے اور ہم ہرگز اپنے ربّ کا کسی کو شریک نہ بنائیں گے۔[1] ان احادیث سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ جنات آسمان کے قریب ’’ملأ الأعلی‘‘ کی باتیں سننے کے لیے پہنچ جاتے تھے۔ بلکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب آسمان پر اللہ تعالیٰ کسی معاملے کا فیصلہ فرماتے ہیں تو فرشتے عاجزی سے اپنے پر مارتے ہیں جیسے زنجیر کو پتھر پر مارا جائے۔ جب فرشتوں کا کچھ خوف دور ہوتا ہے تو وہ (ایک دوسرے سے) کہتے ہیں تمھارے ربّ نے کیا فرمایا ہے؟ وہ کہتے ہیں اس نے جو فرمایا ہے حق فرمایا ہے اور وہی سب سے بلند سب سے بڑا ہے۔ چوری چھپے سننے والے شیاطین ان کی بات سن لیتے ہیں۔ حضرت سفیان بن عیینہ نے اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیوں کو کشادہ کرکے ایک کو دوسری پر رکھ کر بتلایا کہ بات اڑانے والے اس طرح اوپر تلے ہو کر وہاں جاتے ہیں۔ پھر کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آگ کا شعلہ بات اڑانے والے کو آکر لگتا ہے قبل اس کے کہ وہ اپنے ساتھی کو بتلائے کہ اس نے کیا سنا ہے۔ اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ شعلہ اس تک نہیں پہنچتا اور وہ اپنے نیچے والے (شیطان) کو وہ بات پہنچا دیتا ہے۔ اس طرح وہ بات زمین پر پہنچا دیتے ہیں۔ سفیان نے کہا کہ وہ بات جادوگر کے منہ میں ڈالی جاتی ہے، وہ ایک بات میں سو باتیں جھوٹی (اپنی طرف سے ملا کر) بیان کرتا ہے۔ کوئی بات سچی نکلتی ہے تو لوگ کہتے ہیں دیکھو اس نے ہمیں فلاں دن خبر دی تھی کہ فلاں دن ایسا ہوگا اور ویسا ہی ہوا۔ اس کی بات سچی نکلے تو یہ وہ بات ہوتی ہے جو |