Maktaba Wahhabi

53 - 438
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے جنات کا آسمان سے فرشتوں کی باتیں سننے کا ذکر قرآنِ مجید میں بھی بیان ہوا ہے، چناں چہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ جنوں نے کہا: ﴿وَأَنَّا لَمَسْنَا السَّمَاءَ فَوَجَدْنَاهَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِيدًا وَشُهُبًا (8) وَأَنَّا كُنَّا نَقْعُدُ مِنْهَا مَقَاعِدَ لِلسَّمْعِ فَمَنْ يَسْتَمِعِ الْآنَ يَجِدْ لَهُ شِهَابًا رَصَدًا ﴾ [الجن: ۹، ۸] ’’اور یہ کہ بے شک ہم نے آسمان کو ہاتھ لگایا تو ہم نے اسے اس حال میں پایا کہ وہ سخت پہرے اور چمکدار شعلوں سے بھر دیا گیا ہے۔ اور یہ کہ بے شک ہم اس کی کئی جگہوں میں سننے کے لیے بیٹھا کرتے تھے تو جو اب کان لگاتا ہے، وہ اپنے لیے ایک چمکدار شعلہ گھات میں لگا ہوا پاتا ہے۔‘‘ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کی ایک جماعت کے ہمراہ سوق عکاظ تشریف لے گئے، شیاطین اور آسمان کی خبر کے درمیان کوئی چیز حائل ہوگئی تھی اور ان پر آگ کے شعلے پھینکے جاتے تھے۔ شیاطین اپنی قوم کے پاس آئے تو انھوں نے کہا کیا معاملہ ہے؟ انھوں نے کہا ہمارے اور آسمان کی خبر کے درمیان کوئی چیز حائل ہوگئی ہے اور ہمارے اوپر آگ کے شعلے پھینکے جاتے ہیں۔ انھوں نے کہا تمھارے اور آسمان کی خبر کے درمیان کوئی چیز حائل ہوئی ہے یا کوئی حادثہ رونما ہوا ہے۔ زمین کے مشارق ومغارب میں پھیل جاؤ اور غور کرو کس بنا پر تمھارے اور آسمان کی خبر کے درمیان کوئی چیز حائل ہوئی ہے۔ تو وہ نکل کھڑے ہوئے تہامہ کی طرف متوجہ ہوئے جہاں نخلہ مقام پر سوق عکاظ جاتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو صبح کی نماز پڑھا رہے تھے۔ جب انھوں نے قرآن سنا تو انھوں نے اس کو سننے کے لیے کان لگائے، انھوں نے کہا: اللہ کی قسم! یہ ہے وہ
Flag Counter