حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی منقول ہے کہ وہ اسے ’’لا یسمعون‘‘ تخفیف سے پڑھتے تھے۔ فرماتے تھے: وہ سننے کے لیے کان لگاتے مگر کچھ سن نہیں پاتے تھے۔[1] علامہ قرطبی رحمہ اللہ نے بھی اسی کو صحیح کہا ہے۔ اس بارے میں جو احادیث آئی ہیں ان سے بھی سماع کی نفی معلوم ہوتی ہے، چوری چھپے سننے کی نہیں۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ انصاری صحابی رضی اللہ عنہ نے مجھے بتلایا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ایک رات بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک ستارہ ٹوٹا اس کی روشنی پھیلی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم جاہلیت میں ستارہ ٹوٹنے کے بارے میں کیا کہا کرتے تھے؟ صحابہ نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں، ہم کہا کرتے تھے آج رات کوئی بڑا آدمی پیدا ہوا ہے یا بڑا آدمی فوت ہوا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ستارہ کسی کے مرنے یا پیدا ہونے پر نہیں ٹوٹتا بلکہ ہمارے ربّ تبارک وتعالیٰ جب کوئی فیصلہ فرماتے ہیں تو حاملین عرش اللہ تعالیٰ کی تسبیح کہتے ہیں۔ پھر ان کے قریب والے آسمان کے فرشتے اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کی تسبیح آسمانِ دنیا کے فرشتوں تک پہنچتی ہے۔ پھر حاملین عرش کے قریب والے فرشتے حاملین عرش سے پوچھتے ہیں تمھارے رب نے کیا کہا ہے؟ تو وہ انھیں اللہ تعالیٰ کے فیصلے کی خبر دیتے ہیں۔ پھر آسمانوں کے بعض فرشتے بعض کو یہ خبر دیتے ہیں یہاں تک کہ وہ خبر آسمانِ دنیا تک پہنچتی ہے پھر جنات چوری چھپے اسے لے اڑتے ہیں اور اسے اپنے (کاہن) ساتھیوں (کے کانوں) میں پھونک دیتے ہیں۔ پس اگر وہ اسی طرح خبر دیں تو وہ سچ ہوتی ہے مگر وہ اس میں جھوٹ ملاتے ہیں اور اپنی مرضی سے اضافہ کرتے ہیں۔ [2] |