لِلشَّيَاطِينِ وَأَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابَ السَّعِيرِ ﴾ [الملک: ۵] ’’اور بلاشبہہ یقینا ہم نے قریب کے آسمان کو چراغوں کے ساتھ زینت بخشی اور ہم نے انھیں شیطانوں کو مارنے کے آلے بنایا اور ہم نے ان کے لیے بھڑکتی ہوئی آگ کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘ ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: ﴿ وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِي السَّمَاءِ بُرُوجًا وَزَيَّنَّاهَا لِلنَّاظِرِينَ (16) وَحَفِظْنَاهَا مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ رَجِيمٍ (17) إِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَأَتْبَعَهُ شِهَابٌ مُبِينٌ ﴾ [الحجر: ۱۶۔ ۱۸] ’’اور بلاشبہہ یقینا ہم نے آسمان میں کئی برج بنائے اور اسے دیکھنے والوں کے لیے مزین کر دیاہے۔ اور ہم نے اسے ہر مردود شیطان سے محفوظ کر دیا ہے۔ مگر جو سنی ہوئی بات چرا لے تو ایک روشن شعلہ اس کا پیچھا کرتا ہے۔‘‘ ﴿ مَارِدٍ ﴾ سرکش، شریر۔ جنوں اور انسانوں میں سے اس شیطان کو کہا جاتا ہے جو ہر قسم کی خیر سے محروم ہو، یہ ’’شجر امرد‘‘ سے ماخوذ ہے، یعنی وہ درخت جس کے پتے نہ ہوں۔ اسی سے ’’رملۃ مرداء‘‘ ہے، یعنی ریت کا ٹیلہ جس پر کوئی چیز نہ اگتی ہو۔ ’’امرد‘‘ اس لڑکے کو کہتے ہیں جس کے ہنوز سبزہ نہ اُگا ہو۔[1] قرآنِ مجید میں ﴿ شَيْطَانٍ مَارِدٍ ﴾ اور ﴿ شَيْطَانٍ مَرِيدٍ ﴾ دونوں طرح سے آیا ہے، یعنی سرکش، جس سے خیر کی کوئی امید نہیں ہوتی۔ ان مردودوں اور سرکشوں سے آسمان کو محفوظ کردیا ہے۔ ﴿ لَا يَسَّمَّعُونَ إِلَى الْمَلَإِ الْأَعْلَى ﴾ یہ حفاظتِ آسمان کی تفصیل ہے کہ وہ اوپر کی مجلس کی طرف کان نہیں لگا سکتے۔ ﴿ لَا يَسَّمَّعُونَ ﴾، دراصل ’’لَا یَتَسَمَّعُوْنَ‘‘ |