Maktaba Wahhabi

49 - 438
کے مختلف جھرمٹوں سے مختلف چیزیں بنی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ ان تاروں کا بطور احسان ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: ﴿ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِهَا فِي ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ قَدْ فَصَّلْنَا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ ﴾ [الأنعام: ۹۷] ’’اور وہی ہے جس نے تمھارے لیے ستارے بنائے، تاکہ تم ان کے ساتھ خشکی اور سمندر کے اندھیروں میں راستہ معلوم کرو۔ بے شک ہم نے ان لوگوں کے لیے کھول کر نشانیاں بیان کر دی ہیں جو جانتے ہیں۔‘‘ جس طرح یہ ستارے جنگلوں، صحراؤں اور سمندروں میں راستہ معلوم کرنے کا ذریعہ ہیں اسی طرح ان کی جگمگاہٹ اور خوب صورتی دلربائی کا باعث ہے۔ ان دونوں کا فائدہ چونکہ انسان سے وابستہ ہے اس لیے ستاروں کی زینت کا سامان آسمانِ دنیا میں ہے سماواتِ بالا میں نہیں، یہی بات قرآنِ مجید کے دیگر مقامات پر بھی بیان ہوئی ہے[1] ﴿ وَحِفْظًا مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ ﴾ یہ ستاروں کا ایک اور فائدہ بیان ہوا ہے کہ ہم نے آسمان کو ہر سرکش شیطان سے محفوظ کردیا ہے۔ زمین کی طرح آسمان پر آنے جانے کی کھلی چھٹی نہیں کہ جس کا جب جی چاہے آجائے۔ بلکہ جو یہ حماقت کرتا ہے اس کے سد باب کے لیے انھی ستاروں کے ذریعے ہم نے آسمان کو محفوظ کردیا ہے۔ ﴿وَحِفْظًا ﴾ فعل محذوف کی تاکید ہے گویا تقدیر کلام یوں ہے: ’’وحفظنہا حفظا‘‘ اور ہم نے اسے محفوظ کیا ہے خوب اچھی طرح محفوظ کرنا۔ ستاروں کے اس فائدہ کا ذکر مختلف اسالیب میں بیان ہوا ہے: ﴿ وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَجَعَلْنَاهَا رُجُومًا
Flag Counter