Maktaba Wahhabi

437 - 438
قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا ﴾[النساء: ۱۵۷] ’’اور ان کے یہ کہنے کی وجہ سے (ہم نے ان پر لعنت کی) کہ بلاشبہہ ہم نے ہی مسیح عیسیٰ ابن مریم کو قتل کیا، جو اللہ کا رسول تھا، حالانکہ نہ اُنھوں نے اسے قتل کیا اور نہ اسے سولی پر چڑھایا اور لیکن ان کے لیے اس (مسیح) کا شبیہ بنا دیا گیا اور بے شک وہ لوگ جنھوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا ہے یقینا اس کے متعلق بڑے شک میں ہیں انھیں اس کے متعلق گمان کی پیروی کے سوا کچھ علم نہیں اور اُنھوں نے اسے یقینا قتل نہیں کیا۔‘‘ قرآنِ مجید کی ان تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیائے کرام علیہم السلام کی طرح اللہ تعالیٰ کے بعض رسول بھی یہود کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ اس لیے تمام رسولوں کے غلبے کا یہاں کیا مفہوم ہے؟ اہلِ علم نے اس کے متعدد جوابات دیے ہیں: 1 اُن انبیا و رسل علیہم السلام کا غلبہ مراد ہے جنھیں جہاد کا حکم دیا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنی نصرت سے نوازا اور انھیں مخالفین پر غلبہ عطافرمایا۔ جنھیں جہاد کا حکم ہی نہیں دیااور ان کا دشمنوں سے مقابلہ نہیں ہواوہاں تو دشمنوں پر غلبے کا اور ان کی مدد و نصرت کا معاملہ ہی پیش نہیں آیا۔ یوں اگر انھی میں سے بعض انبیا یا بعض رسولوں کو شہید کیا گیا تو وہ اس وعدے کے منافی نہیں۔ قرآنِ مجید میں اکثر و بیشتر مقامات پر ’’غلبہ‘‘ کا ذکر سیف و سنان کے ساتھ ہوا ہے، مثلاً: ’’ اگر تم میں سے بیس صبر کرنے والے ہوں تو وہ دوسو پر غالب آئیں اور اگر تم میں سے ایک سو ہوں تو ان میں سے ہزار پر غالب آئیں جنھوں نے کفر کیا۔‘‘ پھر فرمایا اللہ نے تمھاری کمزوری کی بنا پر اس میں تخفیف کر دی ہے۔ اب: ’’اگر تم میں سے سو صبر کرنے والے ہوں تو دوسو پر غالب آئیں اور
Flag Counter