اگر ایک ہزار ہوں تو اللہ کے حکم سے دو ہزار پر غالب آئیں۔‘‘[1] بعد میں ’’تخفیف‘‘ کر دینے سے ہی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ پہلی بات خبر نہیں حکم ہے، کیونکہ تخفیف حکم میں ہوتی ہے خبر میں نہیں ہوتی۔ بسا اوقات کوئی حکم خبر کے انداز میں بھی ہوتا ہے۔ جیسا کہ طالوت اور جالوت کی لڑائی کے ضمن میں فرمایا گیا ہے: ’’کتنی ہی تھوڑی جماعتیں زیادہ جماعتوں پر اللہ کے حکم سے غالب آگئیں۔‘‘[2] طالوت کا لشکر ۳۱۳ افراد پر مشتمل تھا اور وہ جالوت کے لشکر پر غالب آیا۔ بدر میں بھی صحابہ کرام ۳۱۳ تھے۔ اُحد میں بھی تعداد کفار سے بہت کم تھی، جنگِ موتہ میں تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تین ہزار جبکہ دشمن کی فوج ۲ لاکھ پر مشتمل تھی۔ بلکہ آیت ﴿ كَتَبَ اللَّهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي ﴾ [المجادلۃ: ۲۱] کے بارے میں مقاتل فرماتے ہیں کہ بعض لوگوں نے کہا کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اُن کے ساتھی سمجھتے ہیں ہم روم و فارس پر غلبہ حاصل کر لیں گے حالانکہ یہ ان کی قوت و کثرت کی وجہ سے ان پر غلبہ حاصل نہیں کر سکتے۔ اسی کی تردید میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی۔ جس سے معلوم ہوتا ہے یہاں غلبہ سے مراد سیف و سنان کے ذریعے غلبہ ہے۔ اس سے پہلے کفار کے بارے ﴿ أُولَئِكَ فِي الْأَذَلِّينَ ﴾ [المجادلۃ: ۲۰] ’’وہی سب سے زیادہ ذلیل ہونے والے ہیں۔‘‘کا فرمان بھی اسی کا مُشعِر ہے کہ کفار ذلیل و رسوا ہوں گے اور |