﴿ قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُونَ أَنْبِيَاءَ اللَّهِ مِنْ قَبْلُ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ ﴾[البقرۃ: ۹۱] ’’کہہ دے پھر اس سے پہلے تم اللہ کے نبیوں کو کیوں قتل کیا کرتے تھے اگر تم مومن تھے ؟‘‘ اسی طرح رسولوں کے بارے میں بھی یہود سے کہا گیا: ﴿ أَفَكُلَّمَا جَاءَكُمْ رَسُولٌ بِمَا لَا تَهْوَى أَنْفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ فَفَرِيقًا كَذَّبْتُمْ وَفَرِيقًا تَقْتُلُونَ ﴾ [البقرۃ: ۸۷] ’’پھر کیا جب کبھی کوئی رسول تمھارے پاس وہ چیز لے کر آیا جسے تمھارے دل نہ چاہتے تھے، تم نے تکبر کیا تو ایک گروہ کو جھٹلادیا اور ایک گروہ کو قتل کرتے رہے۔‘‘ ایک اور مقام پر یوں بیان ہوا: ﴿ قُلْ قَدْ جَاءَكُمْ رُسُلٌ مِنْ قَبْلِي بِالْبَيِّنَاتِ وَبِالَّذِي قُلْتُمْ فَلِمَ قَتَلْتُمُوهُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ ﴾ [آل عمران: ۱۸۳] ’’کہہ دے بے شک مجھ سے پہلے کئی رسول تمھارے پاس واضح دلیلیں لے کر آئے اور وہ چیز لے کر بھی (یعنی سوختنی قربانی کی نشانی) جو تم نے کہی ہے، پھر تم نے انھیں کیوں قتل کیا، اگر تم سچے تھے۔‘‘ بلکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں تو یہودی عقیدہ تھا کہ ہم نے انھیں سولی پر چڑھا دیا اور اسے وہ اپنا فخریہ کارنامہ سمجھتے تھے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے کے مطابق انھیں نہ قتل کیا گیا اور نہ سولی چڑھایا گیا۔ اور یہ عقدہ حل ہوا جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کتاب ’’مھیمن‘‘ نازل فرمائی: ﴿ وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللَّهِ وَمَا |