Maktaba Wahhabi

430 - 438
اُمت سے زیادہ ہدایت پانے والے ہوں گے، پھر جب ان کے پاس ایک ڈرانے والا آیا تو اس نے ان کو دور بھاگنے کے سوا کچھ زیادہ نہیں کیا۔‘‘ کسی کے پاس کوئی چیز نہ ہو تو شیخی مارتا ہوا کہتا ہے کہ اگر میرے پاس یہ ہوتی تو میں تمھیں یہ کرکے دکھاتا لیکن جب وہ چیز اسے میسر آجاتی ہے تو وہ دوسروں سے بڑھ کر نالائق ثابت ہوتا ہے۔ اسی کا مظاہرہ کفار مکہ نے بھی کیا۔ بلکہ ہر دور میں جاہ و حشمت کے پجاریوں نے یہی کردار ادا کیا ہے۔ اس لیے یہاں ﴿ ذِكْرًا ﴾ سے رسول بھی مراد ہے۔ کتاب بلاشبہہ کتابِ ذکر ہے مگر تنہا کتاب، اللہ تعالیٰ نے کبھی نازل نہیں کی۔ ’’ذکر‘‘ بغیر ’’مُذَکِّر‘‘ کافی نہیں۔ تعلیم بلا معلّم اور تزکیہ بغیر مُزَکِّی حاصل نہیں ہوتا۔ ﴿ لَكُنَّا عِبَادَ اللَّهِ الْمُخْلَصِينَ ﴾ اگر ہمارے پاس اللہ کی کتاب آئی ہوتی یا کوئی رسول آیا ہوتا تو ہم اللہ کے مخلص بندوں میں سے ہوتے۔ ’’عباد‘‘ یعنی اللہ کے عبادت گزار اور اطاعت شعار بندے۔ ورنہ اُمور تکوینی میں تو کفار بھی اللہ تعالیٰ کے ’’عبد‘‘ ہیں۔ ’’مخلص‘‘ کے ’’ل‘‘ پر زبر ہے۔ یعنی ہم اللہ کے ان چنے ہوئے بندوں میں ہوتے جنھیں اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے خالص کیا ہے۔ بعض مفسرین نے اس کو ’’ل‘‘ کے نیچے زیر کے ساتھ پڑھا ہے۔ اس کے معنی ہیں یعنی ہم خالص اسی کی عبادت کرتے اس میں کسی کو شریک نہ بناتے۔ لیکن یہ دونوں معنی باہم لازم و ملزوم ہیں کیوں کہ جو اللہ ہی کے عباد ت گزار ہیں وہی اللہ کے منتخب اور چنے ہوئے ہیں۔ ﴿ فَكَفَرُوا بِهِ ﴾ ان کی تمنا کے مطابق جب اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب نازل فرما دی جو ’’سید الاذکار‘‘ ہے اور ’’کتاب مھیمن‘‘ یعنی جو تمام کتابوں کی نگران ہے۔ اور اپنا رسول بھی بھیج دیا جو سید ولد آدم اور ’’امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ ہے تو اُنھوں نے
Flag Counter