کہ کتاب تو صرف ان دوگروہوں پر اُتاری گئی جو ہم سے پہلے تھے اور بے شک ہم ان کے پڑھنے پڑھانے سے یقینا بے خبر تھے۔ یا یہ کہو کہ اگر واقعی ہم پر کتاب اُتاری جاتی تو ہم ان سے زیادہ ہدایت والے ہوتے۔ پس بے شک تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے ایک روشن دلیل اور ہدایت اور رحمت آچکی۔‘‘ چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے کتاب نازل کرکے اتمام حجت کردیا ہے۔ ﴿ ذِكْرًا ﴾ رسول کے معنی میں بھی وارد ہوا ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْرًا (10) رَسُولًا ﴾ [الطلاق: ۱۱، ۱۰] ’’یقینا اللہ نے تمھاری طرف ایک نصیحت نازل کی ہے۔ جو (ایسا) رسول ہے۔۔۔ الخ۔‘‘ یہاں ﴿ رَسُولًا ﴾ ، ﴿ ذِكْرًا ﴾ سے بدل ہے۔ اور مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’ذکر‘‘ اس لیے کہا گیا ہے کہ کتب سابقہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہے۔[1] مشرکینِ مکہ کہتے تھے کہ دوسری قوموں کی طرف تو رسول آئے ہیں ہمارے پاس تو براہِ راست کوئی رسول نہیں آیا، اگر ہمارے پاس رسول آتا تو ہم بھی اس کی پیروی کرکے مخلصین میں شمارہوتے۔ بلکہ سورت فاطر میں اسی حوالے سے رسول کی تمنا ہی کا ذکر ہے: ﴿ وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لَئِنْ جَاءَهُمْ نَذِيرٌ لَيَكُونُنَّ أَهْدَى مِنْ إِحْدَى الْأُمَمِ فَلَمَّا جَاءَهُمْ نَذِيرٌ مَا زَادَهُمْ إِلَّا نُفُورًا ﴾ [فاطر: ۴۲] ’’اور اُنھوں نے اپنی پختہ قسمیں کھاتے ہوئے اللہ کی قسم کھائی کہ واقعی اگر کوئی ڈرانے والا ان کے پاس آیا تو ضرور بالضرور وہ اُمتوں میں سے کسی بھی |