﴿ وَإِنْ كَانُوا لَيَقُولُونَ (167) لَوْ أَنَّ عِنْدَنَا ذِكْرًا مِنَ الْأَوَّلِينَ (168) لَكُنَّا عِبَادَ اللَّهِ الْمُخْلَصِينَ (169) فَكَفَرُوا بِهِ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ (170) ﴾[الصّٰفّٰت: ۱۷۰۔ ۱۶۷] ’’اور بے شک وہ (کافر) تو کہا کرتے تھے۔ اگر واقعی ہمارے پاس پہلے لوگوں کی کوئی نصیحت ہوتی۔ تو ہم ضرور اللہ کے چنے ہوئے بندے ہوتے۔ تو اُنھوں نے اس کا انکار کر دیا، سوجلد ہی جان لیں گے۔‘‘ ان آیات میں مشرکین قریش کی ہٹ دھرمی اور ضد کا ذکر ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے تو کہتے تھے کہ اگر ہمارے پاس کتاب ہوتی تو ہم اس کی روشنی میں ہدایت کی راہ اختیار کرتے اور اللہ کے مخلص بندوں میں شمارہوتے۔ یہودیوں کی کارستانیاں قریش کے سامنے تھیں، جنھوں نے اپنے کچھ انبیا کی تکذیب کی اور ان کے قتل کے درپے ہوئے۔ اسی تناظر میں وہ کہتے تھے ہمارے پاس کوئی رسول آتا، اللہ کی کتاب پڑھ کے سناتا تو ہم اطاعت گزاری میں کسی سے پیچھے نہ رہتے۔ ﴿ وَإِنْ كَانُوا ﴾ مفسرین نے ذکر کیا ہے کہ ﴿ إِنْ ﴾ مخففہ ہے، جو اصل میں ’’ اِنَّہم کانوا‘‘ تھا۔ اس میں تخفیف کرکے ﴿ وَإِنْ كَانُوا ﴾ فرمایا گیا ہے۔ ﴿ لَوْ أَنَّ عِنْدَنَا ذِكْرًا ﴾ ذکر سے مراد نصیحت اور پندو نصائح کی کتاب ہے۔ ﴿ مِنَ الْأَوَّلِينَ ﴾ پہلے لوگوں کی۔ یعنی جو ذکر و نصیحت اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف نازل کی اس میں سے کچھ ہمارے پاس ہوتی تو ہم اس سے نصیحت پکڑتے۔ قرآن پاک کے بارے میں فرمایا گیا ہے: ﴿ وَهَذَا ذِكْرٌ مُبَارَكٌ أَنْزَلْنَاهُ أَفَأَنْتُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ ﴾ [الأنبیاء: ۵۰] |