دنیا پر تشریف لاتے ہیں تو زمین والوں سے اہلِ آسمان پر فخر کرتے ہیں کہ دیکھو میرے بندے، پراگندہ حال اور خاک آلود بالوں سے دور دراز کا سفر کرکے میرے پاس آئے ہیں میری رحمت کے امید وار ہیں اور اُنھوں نے میرا عذاب نہیں دیکھا اس دن جس قدر لوگ جہنم سے آزاد کیے جاتے ہیں کہ دوسرے کسی دن نہیں کیے جاتے۔[1] یہی روایت مختلف الفاظ سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ’’صحیح مسلم‘‘[2] ’’ سنن النسائي‘‘[3] وغیرہ میں، عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مسند احمد میں اور حضرت انس سے ابو یعلیٰ میں بھی مروی ہے۔[4] حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو ہمیں ہدایت دی اور ہمیں انعامات سے نواز ا اس پر ہم پہلے سے دعا مانگ رہے تھے اور اللہ کی حمد و ثنا کر رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، پوچھا: کیا کر رہے ہو؟ ہم نے اپنے بیٹھنے کا سبب ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم کیا تم اسی لیے بیٹھے ہو؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا اللہ کی قسم بس اسی لیے بیٹھے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تم سے قسم تمھیں متہم سمجھتے ہوئے نہیں لی، میرے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے ہیں اور مجھے بتلایا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے تم پر فخر و ناز فرماتے ہیں۔[5] حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن رواحہ کسی صحابی سے ملتے تو کہتے: آؤ ایک گھڑی اللہ پر ایمان میں گزاریں۔ ایک صحابی سے اُنھوں نے یہی بات کہی تو اُنھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکوہ کیا کہ ابن رواحہ ہم سے ایک گھڑی |