قرآن مجید میں جو اقامتِ صلاۃ کا حکم ہے صفوں کی درستی اس کا حصہ ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (( تسویۃ الصفوف من إقامۃ الصلاۃ )) [1] ’’صفوں کی درستی اقامتِ صلاۃ میں سے ہے۔‘‘ صرف صفوں کی درستی ہی نہیں، رکوع و سجود اور قیام میں بھی فرشتوں سے موافقت ہے۔ فرشتے آسمانوں پر بیت المعمور کے طواف میں مصروف ہیں، ایک طواف میں ستر ہزار فرشتے ہوتے ہیں، جو ایک بار طواف کرتا ہے دوبارہ اس کی باری نہیں آتی۔ عرش عظیم کا طواف اور اس کے گرد تسبیح و تحمید اس پر مستزاد ہے۔ بیت المعمور کے نیچے بیت اللہ ہے جس کا طواف خوش نصیب کرتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید اورتکبیر وتہلیل کا شرف پاتے ہیں یوں ان عبادات میں فرشِ زمین پر بسنے والے خوش نصیب آسمانوں پر بسنے والے فرشتوں کی عبادات میں موافقت کرتے ہیں۔ فرشتے آسمانوں پر سجدہ ریز ہیں اور رکوع میں جھکے ہیں زمین پر بندگانِ حق نماز میں سجدہ و رکوع کرکے ان کی موافقت کر رہے ہیں۔ امام غزالی نے فرمایا ہے کہ عبادت کا سب سے افضل طریقہ نماز ہے کہ یہی عبادت فرشتوں کی ہے اگر اس سے بہتر اور کوئی طریقہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس کا حکم فرشتوں کو فرماتے۔ ﴿ وَإِنَّا لَنَحْنُ الْمُسَبِّحُونَ ﴾ اور بلاشبہہ ہم تسبیح کرنے والے ہیں یہ اور سابقہ آیت جملہ اسمیہ ہے جو استمرار پر دلالت کرتا ہے، یعنی یہ ان کا دائمی طریقہ و عمل ہے۔ سورۃالانبیاء میں ہے: ﴿ وَلَهُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ عِنْدَهُ لَا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ |