بعض مفسرین نے ’’مقام‘‘ کے معنی درجہ و مرتبہ کیے ہیں کہ ہر ایک کا اللہ کے ہاں ایک مرتبہ و مقام ہے ہر ایک کی ذمہ داری اور ڈیوٹی ہے جسے وہ انجام دے رہاہے، وہ اپنی حدود سے تجاوز نہیں کر سکتا نہ کسی معاملے میں دخل دے سکتا ہے اور نہ ہی کوئی کام اپنی مرضی سے کرنے کا مجاز ہے: ﴿ لَا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ ﴾ [التحریم: ۶] ’’جو اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے جو وہ انھیں حکم دے اور وہ کرتے ہیں جو حکم دیے جاتے ہیں۔‘‘ جو یوں محکوم اور فرمانبردار ہیں انھیں اللہ کی عبادت میں شریک کرنا کتنی احمقانہ سوچ ہے۔ ﴿ وَإِنَّا لَنَحْنُ الصَّافُّونَ ﴾ اور ہم بے ڈھبے نہیں بلکہ بڑے ادب و سلیقے سے صفیں باندھے ہوئے ہیں۔ فرشتوں کی اس صفت کا ذکر اس سورت کی پہلی آیت میں بھی ہوا ہے: ﴿ وَالصَّافَّاتِ صَفًّا ﴾ [الصّٰفّٰت: ۱] ’’قسم ہے ان (جماعتوں) کی جو صف باندھنے والی ہیں خوب صف باندھنا۔‘‘ اس کی تفسیر میں جو معروضات پیش کی گئی ہیں ان پر دوبارہ ایک نظر ڈال لیجیے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اقامتِ صلاۃ پر لوگوں کی طرف منہ کرکے فرماتے: ’’اپنی صفیں درست کر لو سیدھے کھڑے ہو جاؤ اللہ تعالیٰ تمھیں فرشتوں کا طریقہ بتلاتا ہے۔ پھر آپ یہی آیت پڑھتے اور فرماتے: اے فلاں! تم کچھ پیچھے ہوجاؤ، اے فلاں! تم کچھ آگے ہو جاؤ۔ پھر آگے بڑھتے اور تکبیر تحریمہ کہتے۔‘‘[1] |