﴿ لَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا أَشْرَكْنَا وَلَا آبَاؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِنْ شَيْءٍ ﴾[الأنعام: ۱۴۸] ’’اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم شریک بناتے اور نہ ہمارے باپ دادااور نہ ہم کوئی چیز حرام ٹھہراتے۔‘‘ ایک اور مقام پر ان کے اسی عذر باطل کا یوں ذکر ہوا ہے: ﴿ وَقَالُوا لَوْ شَاءَ الرَّحْمَنُ مَا عَبَدْنَاهُمْ ﴾ [الزخرف: ۲۰] ’’اور اُنھوں نے کہا اگر رحمن چاہتا تو ہم ان کی عبادت نہ کرتے۔‘‘ کفر و شرک پر قائم رہتے ہوئے یا گناہ و معصیت پر اصرار کرتے ہوئے تقدیر سے استدلال بجائے خود مشرکانہ استدلال ہے۔ اور گناہ کا جواز پیش کرنے کے مترادف ہے جو باعثِ ملامت ہے۔ اس کے برعکس غلطی و گناہ پر اعترافِ گناہ اور اس پر اظہارِ ندامت ہے اور اسے چھوڑ دینے کا عزمِ مصمم بھی ہے۔ اسے اگر ملامت کیا جائے تو وہ کہہ سکتا ہے کہ یہ نوشتۂ تقدیر تھا۔ آدم علیہ السلام نے بھی توبہ کے بعد اپنی خطا کو تقدیر کا نتیجہ قرار دیا۔ اور توبہ کے بعد گناہ پر ملامت پر اعتراض کیا اسی بنا پر موسیٰ علیہ السلام لاجواب ہو گئے اور آدم علیہ السلام ان پر غالب آگئے۔ حافظ ابن قیم نے ’’شفاء العلیل‘‘ میں اس روایت پر بڑی نفیس بحث کی ہے شائقین اس کی بھی مراجعت فرمالیں۔ |