کو شرفِ ہم کلامی بخشا، آپ کو تورات دی جس میں ہر چیز کو خوب بیان کر دیا گیا۔ آپ کو معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری پیدایش سے کتنا عرصہ پہلے تورات کو لکھا؟ جناب موسیٰ علیہ السلام نے کہا: چالیس سال۔ آدم علیہ السلام نے کہا آپ نے اس میں یہ لکھا ہوا پایا: ’’وعصی آدم ربہ فغوی۔‘‘ (اور آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی تو وہ بھٹک گیا)؟ موسیٰ علیہ السلام نے کہا: ہاں۔ آدم علیہ السلام نے فرمایا: جو اللہ نے میرے پیدا کرنے سے چالیس سال پہلے لکھ دیا تھا آپ مجھے اس پر ملامت کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدم علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام پر غالب آگئے۔[1] یعنی جو کام میرے لیے اللہ تعالیٰ نے پہلے سے لکھ دیا تھا میں اللہ کے فیصلے اور علم کے خلاف کیسے کر سکتا تھا۔ آپ میرے عمل اور کسب کو دیکھتے ہیں اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر توجہ نہیں کرتے۔ آدم اور موسیٰ علیہما السلام کی یہ گفتگو آدم علیہ السلام کے دنیا سے چلے جانے کے بعد کی ہے۔ آدم کے اس عمل کو اللہ تعالیٰ نے معاف فرمادیا اس لحاظ سے بھی اب اس پر اعتراض مناسب نہ تھا۔ آج اگر کوئی اسی حدیث کے تناظر میں کہے کہ کسی نافرمان کو ملامت نہیں کرنا چاہیے تو یہ قطعاً درست نہیں۔ اس لیے کہ نافرمانی کی صورت میں وہ اس دنیا میں جو دارالتکلیف اور دارالامتحان ہے اور وہ احکامِ الٰہی کا مخاطب ہے، باعث ملامت ہوگا۔ اس ملامت سے دوسرے نافرمانوں کو خبردار کرنا بھی مقصود ہے۔ جب کہ آدم علیہ السلام دارالتکلیف سے جا چکے تھے اب انھیں ملامت کرنا بجز انھیں شرمندہ کرنے کے اور کیا ہوگا۔[2] اس لیے نافرمانوں کا اس حدیث سے استدلال حقیقت سے بے خبری کا نتیجہ ہے۔ اپنے جرم اور گناہ پر مسلسل اصرار کو نوشتۂ تقدیر کہنا مشرکین کا طریقۂ استدلال ہے۔ چنانچہ وہ کہتے تھے: |