Maktaba Wahhabi

414 - 438
یہ بھی ملحوظ رہے کہ ہر انسان صحیح عقیدے اور صحیح عمل کا متمنی ہے لیکن پھر بھی اس کی گمراہی اور بے عملی دلیل ہے کہ معاملہ اس کے اختیار میں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ کی حکمت اور علم کسی چیز کا متقاضی ہو اور وہ اسی طرح نہ ہو تو اس کا نتیجہ ہے کہ (معاذ اللہ!) اللہ تعالیٰ کی حکمت باطل اور علم درست نہیں۔ ان تمام حقیقتوں کا تقاضا ہے کہ ہر عمل و فیصلہ اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ تقدیر پر ایمان ایمانیات کا حصہ ہے جیسا کہ حدیث جبرائیل علیہ السلام میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر اور قیامت کے دن پر اور تقدیر کی بھلائی اور اس کی برائی پر ایمان لاؤ۔ تقدیر کے حوالے سے بہت سی احادیث مبارکہ مروی ہیں جنھیں مشکاۃ کے باب الایمان بالقدر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ تقدیر اللہ تعالیٰ کا راز ہے اس پر جہاں ایمان کا حکم ہے اسی طرح اس میں بحث و تمحیص سے منع فرمایا ہے۔ انسان کو اللہ تعالیٰ کی بندگی کا حکم ہے اسے عبودیت کا تقاضا پورا کرنا چاہیے۔ تقدیر کو سہارا بنا کر اپنی نالائقیوں پر اپنے آپ کو مجبور نہیں سمجھنا چاہیے۔ اسباب کی دنیا میں کوئی تقدیر پر قانع نہیں ہوتا مگر اطاعت و فرمانبرداری میں تقدیر کے سہارے ڈھونڈتا ہے۔ تلک إذا قسمۃ ضیزی۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت آدم اورحضرت موسیٰ علیہما السلام کے مابین مناقشہ ہوا۔ جناب موسیٰ نے فرمایا: آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے بنایا، آپ میں اپنی (پیدا کی ہوئی) روح پھونکی، فرشتوں سے سجدہ کرایا اور اپنی جنت میں بسایا۔ پھر آپ کی ایک غلطی سے لوگوں کو زمین پر اتارا۔ ان کے جواب میں آدم علیہ السلام نے فرمایا: آپ وہ ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت کے لیے چنا اور آپ
Flag Counter