﴿ فَإِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ (161) مَا أَنْتُمْ عَلَيْهِ بِفَاتِنِينَ (162) إِلَّا مَنْ هُوَ صَالِ الْجَحِيمِ (163) ﴾ [الصّٰفّٰت: ۱۶۳۔ ۱۶۱] ’’پس بلاشبہہ تم اور جن کی تم عبادت کرتے ہو۔ تم اس کے خلاف بہکانے والے نہیں۔ مگر اس کو جو بھڑکتی آگ میں داخل ہونے والا ہے۔‘‘ فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دینے والوں اور جنات کی اللہ تعالیٰ سے رشتے داری قائم کرنے والوں کو ان کے انجام سے خبردار کرنے اور ان کی افترابازی کو بیان کرنے کے بعد اب ان آیات میں معبودانِ باطلہ اور ان کے عبادت گزاروں کی بے بسی کابیان ہے کہ وہ بہر نوع لوگوں کو گمراہ کرنے اور اپنے معبودوں کا گرویدہ بنانے کی پوری کوشش کرتے، ان کی گستاخی اور ان سے اعراض کرنے پر ان کی ناراضی کا خوف دلاتے اور بیماری یا کسی مصیبت میں مبتلا ہونے کے خطرات سے خبردار کرتے تھے۔ ضمام بن ثعلبہ جب اپنی قوم بنو سعد بن بکر کے نمایندہ بن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، ایمان قبول کیا، واپس جاکے جو پہلی بات انھوں نے قوم سے کی وہ یہ تھی کہ ’’لات و عزیٰ بھاگ گئے۔‘‘ قوم نے کہا: ضمام! جذام سے، جنوں سے اور برص سے ڈرو۔ یعنی لات و عزیٰ کی توہین میں تم کہیں ان بیماریوں میں مبتلا نہ ہو جانا۔ اُنھوں نے فرمایا: اللہ کی قسم وہ نہ نفع دے سکتے ہیں نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں۔[1] آج بھی قبروں اور درختوں کے بچاری اسی طرح سادہ لوح مسلمانوں کو خوف دلاتے اور ان کی نذر و منت پر آمادہ کرتے ہیں اور یوں انھیں گمراہ کرنے کی کوشش |