Maktaba Wahhabi

406 - 438
ایک اور مقام پر فرمایا: ﴿ قُلْ إِنْ كَانَ لِلرَّحْمَنِ وَلَدٌ فَأَنَا أَوَّلُ الْعَابِدِينَ (81) سُبْحَانَ رَبِّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُونَ ﴾ [الزخرف: ۸۲۔ ۸۱] ’’کہہ دے اگر رحمان کی کوئی اولاد ہو تو میں سب سے پہلے عبادت کرنے والا ہوں۔ پاک ہے آسمانوں اور زمین کا رب، جو عرش کا رب ہے، اس سے جو وہ بیان کرتے ہیں۔‘‘ ﴿ إِلَّا عِبَادَ اللَّهِ الْمُخْلَصِينَ ﴾ یہ استثناء منقطع ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے ہیں وہ اس قسم کے گندے عقیدے سے بری ہیں۔ وہ مخلص ہیں اللہ اور اس کے رسول کے متبع ہیں۔ وہ اپنی من مانی نہیں کرتے اور نہ ہی دلیل و برہان کے بغیر کسی کی پیروی کرتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کے بارے میں وہی بات کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ وغیرہ نے کہا ہے کہ یہ استثناء متصل ﴿ مِنَ الْمُحْضَرِينَ ﴾ سے ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ غلط عقیدہ رکھنے والے رسوا ہوں گے اور عذاب میں مبتلا ہوں گے، مگر اللہ کے مخلص بندے اس سے نجات پائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے تو ان کے لیے جنت تیار کر رکھی ہے، مگر حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ تاویل محل نظر ہے۔ ﴿المخلص﴾ میں ’’ل‘‘ کے نیچے زیر ہو تو معنی ہیں کہ خالص اللہ کی عبادت کرنے والا اللہ تعالیٰ نے خالص اپنی عبادت کا ہی جا بجا حکم فرمایا ہے۔[1] اور اگر ’’ل‘‘ پر زبر ہو تو معنی ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے لطف و کرم سے خالص بنایا ہو۔ موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ہے:
Flag Counter