یہاں سوال یہ ہے کہ جب مشرکین کو گمراہ کرنے کے انجام سے جنات باخبر ہیں تو وہ خود اللہ تعالیٰ کے بندوں کو گمراہ کرنے کی جسارت کیوں کرتے ہیں؟ اس کا جواب بالکل واضح ہے کہ ابلیس اپنے انجام سے باخبر ہونے کے باوجود نوع انسان کو گمراہ کرنے پر تلا ہو اہے تو اس کے چیلے بھی اس کے ہمنوا ہیں اور اپنے انجام سے آگاہی کے باوجود شیطنت سے باز نہیں آتے، بلکہ انسان بھی تو اپنے بُرے اعمال کے انجام سے آگاہ ہیں، مگر اس کے باوجود معصیت سے اجتناب نہیں کرتے۔ یوں وہ بھی شیطان نما انسان بنے ہوئے ہیں۔ اسی لیے فرمایا گیا: ﴿مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ ﴾ [الناس: ۶] جن مفسرین نے ﴿ الْجِنَّةُ﴾ کے معنی یہاں ملائکہ کیے ہیں، ان کے نزدیک آیت کا مفہوم واضح ہے کہ ملائکہ جانتے ہیں یہ لوگ مجرم کی حیثیت سے پیش کیے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ کے عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ ﴿ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يَصِفُونَ ﴾ فرشتوں اور جنون کے بارے میں مشرکین کے عقیدے کی تردید کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات ستودہ صفات اس قسم کی تمام نسبتوں سے پاک ہے نہ اس کا کوئی بیٹا بیٹی ہے اور نہ ہی کوئی اس کی بیوی ہے، وہ وحدہٗ لاشریک ہے نہ کوئی اس کی ذات میں شریک ہے نہ ہی اس کی صفات میں۔ اللہ تعالیٰ کی یہ تسبیح وتنزیہ دوسرے مقامات میں بھی اسی طرح بیان ہوئی ہے: ﴿ وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكَاءَ الْجِنَّ وَخَلَقَهُمْ وَخَرَقُوا لَهُ بَنِينَ وَبَنَاتٍ بِغَيْرِ عِلْمٍ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يَصِفُونَ ﴾ [الأنعام: ۱۰۰] ’’اور انھوں نے جنوں کو اللہ کے شریک بنا دیا، حالاں کہ اس نے انھیں پیدا کیا اور اس کے لیے بیٹے اور بیٹیاں کچھ جانے بغیر تراش لیں، وہ پاک ہے اور بہت بلند ہے، اس سے جو وہ بیان کرتے ہیں۔‘‘ |