Maktaba Wahhabi

404 - 438
بیٹیوں سے ہوتا ہے۔ اور یہ کوئی بعید بات بھی نہیں کہ مشرکین فرشتوں کو بیٹیاں اور جنوں کو بیٹے کہتے ہوں۔ جیسے یہاں دونوں کے بارے میں علاحدہ علاحدہ بیان ہوا ہے۔ ﴿وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّةُ ﴾ حالانکہ جِن جان چکے ہیں کہ بے شک وہ ضرور حاضر کیے جانے والے ہیں۔ یہاں ’’ل اور قد‘‘ دونوں تاکید کے لیے ہیں کہ جنات اس حقیقت کو یقینی طور پر جانتے ہیں کہ جو لوگ ان کا رشتہ اللہ تعالیٰ سے جوڑتے ہیں وہ جھوٹے ہیں اور وہ ضرور اللہ تعالیٰ کے ہاں حاضر کیے جانے والے ہیں اور اپنے جرم کی پاداش میں سزا پانے والے ہیں۔ ﴿إِنَّهُمْ ﴾ سے مراد مشرکین ہیں۔ اس سے مراد تمام جنات بھی ہوسکتے ہیں کہ وہ جانتے ہیں کہ وہ حساب کتاب کے لیے حاضر ہونے والے ہیں۔ اگر ان کے اور اللہ تعالیٰ کے مابین تعلق ہوتا تو وہ حساب کے لیے حاضر نہ کیے جاتے۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاریٰ سے فرمایا ہے کہ اگر تم اللہ کی اولاد یا اس کے محبوب ہوتے تو وہ تمھیں عذاب نہ دیتا۔ [المائدۃ: ۱۸] یا اس سے مراد وہ شیاطینِ جن ہیں جن کی پرستش کی جاتی ہے اور جو لوگوں کے دلوں میں مشرکانہ اعتقادات کا بیج بوتے ہیں۔ ﴿مُحْضَرُونَ ﴾ میں اشارہ ہے کہ انھیں مجرموں کی صورت میں پیش کیا جائے گا کیوں کہ قرآن مجید میں اس کا استعمال اِکرام کے ساتھ پیش ہونے پر نہیں بلکہ اہانت اور عذاب کے لیے ہوا ہے۔ اور اعزاز واِکرام کے ساتھ لائے جانے کے لیے ’’المجیء‘‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ پہلے اسی سورت میں بیان ہوا ہے کہ جنتی اپنے جہنمی ساتھی کو دیکھ کر کہے گا: ﴿وَلَوْلَا نِعْمَةُ رَبِّي لَكُنْتُ مِنَ الْمُحْضَرِينَ ﴾ [الصّٰفّٰت: ۵۷] ’’اور اگر میرے رب کی نعمت نہ ہوتی تو یقینا میں بھی ان میں ہوتا جو حاضر کیے گئے ہیں۔‘‘
Flag Counter