کی کسی خاص صنف کا بطور رشتہ داری کے ہوا ہے جب کہ مجوسی فکر میں تعلق برابری کا ہے نسبی نہیں۔ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سے یہ قول بھی منقول ہے کہ مشرکینِ مکہ نے شیاطین جنوں کو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں شریک کیا تھا، نسب سے یہاں یہی شراکت فی العبادۃ مراد ہے۔ علامہ قرطبی رحمہ اللہ نے اس تاویل کو ’’احسن ‘‘ قرار دیا ہے۔ بلاشبہہ جنوں کی عبادت ہوتی رہی ہے: ﴿ وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكَاءَ الْجِنَّ وَخَلَقَهُمْ وَخَرَقُوا لَهُ بَنِينَ وَبَنَاتٍ بِغَيْرِ عِلْمٍ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يَصِفُونَ ﴾ [الأنعام: ۱۰۰] ’’اور اُنھوں نے جنوں کو اللہ کے شریک بنا دیا، حالانکہ اس نے انھیں پیدا کیا اور اس کے لیے بیٹے اور بیٹیاں کچھ جانے بغیر تراش لیں، وہ پاک ہے اور بہت بلند ہے اس سے جو وہ بیان کرتے ہیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں ان کی شراکت کی ایک صورت یہ بھی تھی: ﴿ وَأَنَّهُ كَانَ رِجَالٌ مِنَ الْإِنْسِ يَعُوذُونَ بِرِجَالٍ مِنَ الْجِنِّ فَزَادُوهُمْ رَهَقًا ﴾ [الجن: ۶] ’’اور یہ کہ بلاشبہہ بات یہ ہے کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ جنوں میں سے بعض لوگوں کی پناہ پکڑتے تھے تو اُنھوں نے ان (جنوں) کو سرکشی میں زیادہ کر دیا۔‘‘ چنانچہ مشرکین جب سفر کے دوران کہیں پڑاؤ ڈالتے تو کہتے: ہم اس وادی کے جن سردار کی پناہ لیتے ہیں۔[1] بلکہ فرشتوں کی یا اللہ کے جن نیک بندوں کی پوجا پاٹ ہوتی ہے، وہ |