کہتے ہیں کہ وہ رحم مادر میں چھپا ہوا ہوتا ہے۔ فرشتوں اور جنات کو بھی ’’الجنۃ‘‘ اسی لیے کہا گیا کہ وہ حواس سے چھپے ہوئے ہوتے ہیں۔ جنون (دیوانگی) اس بیماری کو کہتے ہیں، جو دماغ میں چھپی ہوئی ہوتی ہے۔ یہاں﴿ الْجِنَّةُ ﴾ سے کون سی مخلوق مراد ہے جنات یا فرشتے، اس بارے میں مفسرین کی دو آراء ہیں: 1 اس سے مراد جنات ہیں اور ان سے رشتہ داری کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ان سے اور ان کی اللہ تعالیٰ سے اولاد ہے امام مجاہد سے مروی ہے کہ مشرکین فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہتے تھے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا: فرشتوں کی ماں کون ہے۔ اُنھوں نے کہا: جنات کی سردار رانیاں ان کی مائیں ہیں۔ امام قتادہ رحمہ اللہ وغیرہ نے کہا ہے کہ یہود کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے جنات سے نکاح کیا ان سے فرشتے پیدا ہوئے، یہی بات بنو کنانہ اور بنو خزاعہ بھی کہتے تھے۔ مگر اس پر یہ اعتراض وارد ہوتا ہے کہ مشرکین تو اللہ تعالیٰ اور جنات کے مابین نسبی تعلق سمجھتے تھے جب کہ زوجیت کا تعلق نسبی نہیں سسرالی ہوتاہے۔ لیکن دراصل یہاں سسرالی رشتے کو معنوی و مجازی طور پر نسبی رشتہ کہا گیا ہے یوں نہیں کہ نسبی رشتہ سسرالی بھی ہوتا ہے۔ بلکہ بعض نے کہا ہے ماں اور باپ دونوں کی طرف اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ، ضحاک اور حسن بصری فرماتے ہیں کہ بعض مشرکین کہتے تھے کہ ابلیس اللہ تبارک و تعالیٰ کا بھائی ہے۔ (معاذ اللہ) اللہ خالق خیر ہے اور شیطان خالق شر ہے۔ جیسے مجوسی ’’یزداں‘‘ اور ’’اہرمن‘‘ دو اِلٰہ سمجھتے تھے۔ ظاہر ہے کہ بلاد فارس کے قریب بسنے والے بعض عرب بھی اسی عقیدے سے متاثر ہوئے ہوں گے۔ امام رازی رحمہ اللہ نے اسی کو ’’أقرب الأقاویل‘‘ قرار دیا ہے۔ مگر یہاں لفظ ’’الجنۃ‘‘ جمع استعمال ہوا ہے۔ شیطان گو جنوں میں سے تھا لیکن یہاں ذکر ان |