جو تم ایسا فیصلہ کر رہے ہو کہ اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ ﴿ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ ﴾ تم نصیحت کیوں حاصل نہیں کرتے؟ تمھیں ہوش نہیں آتا کہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ معمولی غور و فکر سے کام لو تو یہ بات سمجھ آسکتی ہے کہ جب ہم اپنے لیے بیٹیوں کو پسند نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ جو سب کا خالق ہے، وہ اپنے لیے بیٹیوں کوکیسے پسند کرے گا ؟ ﴿ أَمْ لَكُمْ سُلْطَانٌ ﴾ یا تمھارے پاس کوئی واضح دلیل ہے۔ اس میں ان سے نقلی دلیل کا مطالبہ ہے۔ مشاہداتی یا عقلی دلیل نہیں تو کوئی نقلی دلیل ہی پیش کرو اگر تم سچے ہو تو اپنی کوئی کتاب لاؤ جس میں لکھا ہو کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں۔ ’’سلطان‘‘ بادشاہ کو کہتے ہیں اور یہ تسلط اور غلبہ کے معنی میں بھی آتا ہے اور حجت و دلیل کو بھی سلطان کہا گیا ہے۔[1] قرآنِ مجید میں ہے: ﴿ إِنْ هِيَ إِلَّا أَسْمَاءٌ سَمَّيْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ بِهَا مِنْ سُلْطَانٍ ﴾ [النجم: ۲۳] ’’یہ (بت) چند ناموں کے سوا کچھ بھی نہیں ہیں، جو تم نے اور تمھارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں، ان کی کوئی دلیل اللہ نے نازل نہیں فرمائی۔‘‘ یہاں بھی ’’سلطان‘‘ کے یہی معنی ہیں کہ تمھارے پاس کوئی دلیل ہے تو پیش کرو اور وہ دلیل آسمانی کتاب ہی ہو سکتی ہے۔ ہماشما کی لکھی ہوئی بات دلیل نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ کے بارے میں من گھڑت بات کہنے کی کوئی گنجایش نہیں۔ اس لیے اگر تم سچے ہو تو کوئی آسمانی کتاب پیش کرو جس سے تمھارے دعوے کی تصدیق ہوتی ہو۔ ﴿ فَأْتُوا بِكِتَابِكُمْ ﴾ یہ اسلوب بالکل وہی ہے جو سورۃ البقرۃ میں قرآنِ مجید |