Maktaba Wahhabi

397 - 438
کے حوالے سے ہے: ﴿ وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ ﴾ [البقرۃ: ۲۳] ’’اور اگر تم اس کے بارے میں کسی شک میں ہو جو ہم نے اپنے بندے پر اُتارا ہے تو اس کی مثل ایک سورت لے آؤ۔‘‘ زیرِ تفسیر آیت میں بھی فرمایا ہے کہ اگر تمھارے پاس کوئی واضح دلیل ہے تو اپنی کتاب لاؤ۔ اپنی کتاب سے مراد، تمھاری طرف اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب ہے۔ کفارِ مکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے منکر تھے منہ مانگے معجزات دیکھ کر بھی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھے البتہ وہ اللہ کی طرف سے کتاب کے نزول کا انکار نہیں کرتے تھے: ﴿ وَلَنْ نُؤْمِنَ لِرُقِيِّكَ حَتَّى تُنَزِّلَ عَلَيْنَا كِتَابًا نَقْرَؤُهُ ﴾ [بني إسرائیل: ۹۳] ’’اور ہم تیرے (آسمان پر) چڑھنے کا ہرگز یقین نہ کریں گے یہاں تک کہ تو ہم پر کوئی کتاب اتار لائے جسے ہم پڑھیں۔‘‘ وہ بذریعہ جبرائیل علیہ السلام نزولِ وحی کے منکر تھے یا یہ بہانہ بناتے تھے کہ قرآن ایک ہی بار کیوں نازل نہیں ہوا۔ [الفرقان: ۳۲] مگر وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کتاب نازل ہونے کے منکر نہ تھے۔ قرآن مجید میں تو جا بجا فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں کہنے پر شدید نکیر ہے۔ انھیں کہا گیا ہے کہ اگر تمھارے پاس کوئی کتاب ہے تو وہ لاؤ اگر تم سچے ہو۔ تمھارے پاس نہ مشاہداتی دلیل ہے نہ عقلی اور نہ ہی کوئی نقلی۔ اس لیے تمھارے جھوٹے ہونے میں کیا شک ہے۔ امام رازی رحمہ اللہ نے اشارہ کیا ہے کہ دین کے معاملے میں تقلید نہیں دلیل کی ضرورت ہے اور دلیل کے مقابلے میں تقلید باطل ہے۔
Flag Counter