﴿أَصْطَفَى الْبَنَاتِ عَلَى الْبَنِينَ (153) مَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ (154) أَفَلَا تَذَكَّرُونَ (155) أَمْ لَكُمْ سُلْطَانٌ مُبِينٌ (156) فَأْتُوا بِكِتَابِكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (157)﴾ [الصّٰفّٰت: ۱۵۷۔ ۱۵۳] ’’کیا اس نے بیٹیوں کو بیٹوں پر ترجیح دی۔ کیا ہے تمھیں، تم کیسا فیصلہ کر رہے ہو؟ تو کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے؟ یا تمھارے پاس کوئی واضح دلیل ہے؟ تو لاؤ اپنی کتاب، اگر تم سچے ہو۔‘‘ ﴿ أَصْطَفَى الْبَنَاتِ ﴾کیا اس نے بیٹیوں کو ترجیح دی، بیٹیوں کو پسند کیا، چن لیا، منتخب کیا؟ ’’اصطفی‘‘ اصل میں ’’اصتفی‘‘ ہے اور اس کا مادہ ’’صفو‘‘ ہے، جس کے معنی پسند کرنا منتخب کرنا ہیں۔ یعنی تم جو فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے ہو تو بتلاؤ! کیا اللہ نے اپنے لیے بیٹوں کی بجائے بیٹیوں کو منتخب کیا ہے ؟آخر بیٹوں کی بجائے بیٹیوں کو کس بنا پر پسند کیا ہے؟ جب کہ بیٹے بیٹیوں سے اشرف و افضل سمجھے جاتے ہیں، یہ کتنی عجیب بات ہے کہ تم اپنے لیے تو بیٹوں کو پسند کرو اور اللہ تعالیٰ کے کھاتے میں بیٹیوں کو رکھ دو جنھیں تم خود اپنے لیے ناگوار سمجھتے ہو: ﴿ أَفَأَصْفَاكُمْ رَبُّكُمْ بِالْبَنِينَ وَاتَّخَذَ مِنَ الْمَلَائِكَةِ إِنَاثًا إِنَّكُمْ لَتَقُولُونَ قَوْلًا عَظِيمًا ﴾ [الإسراء: ۴۰] ’’پھر کیا تمھارے رب نے تمھیں بیٹوں کے ساتھ چن لیا اور خود فرشتوں میں سے بیٹیاں بنالی ہیں؟ بے شک تم یقینا ایک بہت بڑی بات کہہ رہے ہو۔‘‘ ﴿ مَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ ﴾ تمھیں کیا ہو گیا ہے؟ تمھاری عقل ماری گئی ہے، |