یہ کردار تو ناشکرے انسان کا ہے کہ جب اس پر انعام و اکرام کی بارش ہوتی ہے تو پروا نہیں کرتا اللہ سے منہ موڑ لیتا ہے مگر جب مصیبت سے دو چار ہوتا ہے تو لمبی لمبی دعائیں شروع کر دیتا ہے، جیسا کہ سورت حٰم السجدۃ (آیت: ۵۱) میں ہے۔ سورۂ یونس میں ہے: ﴿ وَإِذَا مَسَّ الْإِنْسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنْبِهِ أَوْ قَاعِدًا أَوْ قَائِمًا فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُ ضُرَّهُ مَرَّ كَأَنْ لَمْ يَدْعُنَا إِلَى ضُرٍّ مَسَّهُ كَذَلِكَ زُيِّنَ لِلْمُسْرِفِينَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴾ [یونس:۱۲] ’’اور جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے پہلو پر، یا بیٹھا ہوا یا کھڑا ہوا ہمیں پکارتا ہے۔ پھر جب ہم اس سے اس کی تکلیف دور کر دیتے ہیں تو چل دیتا ہے جیسے اس نے ہمیں کسی تکلیف کی طرف، جو اسے پہنچی ہو، پکارا ہی نہیں۔ اسی طرح حد سے بڑھنے والوں کے لیے مزین بنا دیا گیا جو وہ کیا کرتے تھے۔‘‘ مومن اللہ کا بندہ ہوتا ہے اور ہمیشہ اللہ کو یاد رکھتا ہے، وہ مطلب پرست نہیں ہوتا۔ امام ابن جریر وغیرہ نے یونس علیہ السلام کے بارے میں بھی اسی حقیقت کو بیان فرمایا ہے کہ وہ مچھلی کے پیٹ میں جانے سے پہلے ہی ذاکر اور عبادت گزار تھے جب مچھلی کے پیٹ میں جا کر اُنھوں نے اللہ کی تسبیح بیا ن کی تو اللہ نے انھیں اس مشکل سے نجات عطا فرمائی۔ ﴿ لَلَبِثَ فِي بَطْنِهِ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ ﴾ اللہ تعالیٰ کی بندگی اور مچھلی کے پیٹ میں تسبیح و تقدیس کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے انھیں بچالیا۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو قیامت تک مچھلی کے پیٹ میں رہتے۔ علامہ ابو حیان نے کہا ہے کہ یہ اپنے ظاہر پر ہے کہ قیامت تک مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہتے۔ علامہ آلوسی نے کہا ہے: ’’وبہ |