Maktaba Wahhabi

370 - 438
أقول‘‘ (میرا بھی یہی قول ہے)۔ یہ کوئی ناممکنات میں سے نہیں۔جو مالک، موسیٰ علیہ السلام کی بھُنی ہوئی مچھلی کو زندہ کرنے پر قادر ہے، وہ یونس علیہ السلام کی مچھلی کو بھی قیامت تک زندہ رکھنے کی قدرت رکھتا ہے۔ البتہ یہاں ایک اشکال واردہوتا ہے کہ نفخۂ اولیٰ کے وقت کوئی بھی ذی روح زندہ نہیں رہے گا، جیسا کہ سورۃ الزمر(آیت: ۶۸) میں ہے تو قیامت تک ان کا زندہ رہنا کیا ہوا؟ علامہ آلوسی اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ ’’یوم بعث‘‘ سے یہی نفخۂ اولیٰ مراد ہے کیوں کہ یہ قیامت کے مقدمات ہی سے تو ہے گویا نفخۂ اولیٰ تک زندہ رہنا مراد ہے۔ یا یہ طویل مدت کے لیے بطور مبالغہ بیان ہوا ہے۔ امام قتادہ فرماتے ہیں کہ اس سے قیامت تک مچھلی کا پیٹ ہی حضرت یونس علیہ السلام کی قبر بنا رہنا مراد ہے۔ یونس علیہ السلام کتنی دیر تک مچھلی کے پیٹ میں رہے؟ اس بارے آراء مختلف ہیں۔ ابن عباس، ابن جریج اور ابو مالک چالیس دن، جعفر صادق، عطاء اور ابن جبیر سات دن، قتادہ اور مقاتل بن حیان تین دن کہتے ہیں، یہی قول ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی منقول ہے۔ عامر شعبی فرماتے ہیں کہ ضُحیٰ کے وقت مچھلی کے پیٹ میں گئے اور عشا کے وقت مچھلی نے انھیں اُگل دیا۔ علامہ ابو حیان اور علامہ آلوسی نے کہا ہے کہ اس بارے میں کوئی خبر ثابت نہیں۔ حضرت یونس علیہ السلام کا قصہ بائبل میں بھی ذکرہوا ہے اور اس میں مچھلی کے پیٹ میں رہنے کی مدت تین دن بیان ہوئی۔ بائبل کے شارحین اس کی واقعیت کے منکر ہیں اور اسے ایک تمثیل کہتے ہیں۔ ادھر بعض تجدد پسند بھی اس کی حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے۔ سرسید ہوں یا غلام احمد پرویز وغیرہ،انھوں نے ’’عقل پرستی‘‘ کا ثبوت دیتے ہوئے ان آیات کی تفسیر میں غلط تاویلوں کا سہارا لیا ہے۔ جس کی تفصیل کا یہ محل نہیں۔
Flag Counter