Maktaba Wahhabi

367 - 438
نے ﴿ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ ﴾ پڑھا تو یہ دعا عرشِ الٰہی کے اردگرد منڈلانے لگی۔ فرشتوں نے کہا: اے پروردگار ! یہ ضعیف آواز تو بہت دور کی ہے، مگر ہمارے کان اس سے آشنا ضرور ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کیا تم اسے پہچانتے نہیں ہو کہ یہ کس کی آواز ہے؟ فرشتوں نے عرض کیا: جی نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یہ میرے بندے یونس علیہ السلام کی آواز ہے۔ فرشتوں نے کہا: وہی یونس علیہ السلام جن کے نیک اعمال اور مقبول دعائیں ہمیشہ آسمان پر چڑھتی ہیں؟ اے اللہ! ان پر ضرور رحمت فرما اور اُن کی دعا قبول فرمالے، وہ تو آسانیوں میں بھی تیرا نام لیا کرتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ہاں میں اسے نجات دوں گا۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ کے علاوہ ابن ابی حاتم اور عبدالرزاق رحمہما اللہ نے بھی اسے روایت کیاہے۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس کے بارے ’’إن صح الخبر‘‘ (اگر یہ خبر صحیح ہے) کہہ کر شک کا اظہار کیا ہے۔ مگر امر واقع یہی ہے کہ یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کا راوی یزید بن ابان الرقاشی ضعیف ہے۔[1] حضرت یونس علیہ السلام نبی تھے اور نبی کی زندگی اللہ تعالیٰ کی تسبیح وتقدیس سے عبارت ہوتی ہے۔ انھیں یہاں ’’مسبحا‘‘ (تسبیح کرنے والا) نہیں فرمایا بلکہ ’’من المسبحین‘‘ (تسبیح کرنے والوں میں سے) قرار دیا گیا ہے۔ جس میں زندگی بھر ان کے عبادت گزار اور ذاکر ہو نے کی طرف اشارہ ہے۔ مصیبت میں مبتلا ہو کر جب اُنھوں نے اپنے مالک کی تسبیح بیان کی تو اللہ تعالیٰ نے انھیں اس سے نجات عطا فرماد ی۔ اس میں دراصل اشارہ ہے کہ خوشی و غمی میں آسودگی اور تنگ دستی میں اللہ تعالیٰ سے جڑے رہنا چاہیے۔ انسان جب صحت و آسودگی میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوا اطاعت و فرمانبرداری کی زندگی گزارتا ہے، اللہ تعالیٰ سے دعا و مناجات کا مسلسل ربط رکھتا ہے تو شدائد و مشکلات میں کی ہوئی دعا اللہ تعالیٰ
Flag Counter