Maktaba Wahhabi

366 - 438
﴿ مَكْظُومٌ ﴾ کے معنی ابن عباس اور مجاہد نے غم کے کیے ہیں جب کہ عطاء اور ابو مالک نے اس کے معنی ’’کرب‘‘ کے کیے ہیں۔ علامہ الماوردی فرماتے ہیں کہ غم کا تعلق دل سے اور کرب کا جسم سے ہے۔[1] گویا یونس علیہ السلام کا دل اور جسم کا انگ انگ دکھ اوردرد سے بھرا ہوا تھا۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( دعوۃ ذي النون إذ دعا وھو في بطن الحوت: ﴿ أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ ﴾ فإنہ لم یدع بھا رجل مسلم في شیء قط إلا استجاب اللّٰہ لہ )) [2] ’’مچھلی والے کی دعا، جو اس نے مچھلی کے پیٹ میں کی، یہ ہے: ﴿ أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ ﴾ کوئی مسلم آدمی اس کے ساتھ کسی چیز کے بارے میں دعا نہیں کرتا، مگر اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول کرتا ہے۔‘‘ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور قتادہ رحمہ اللہ وغیرہ فرماتے ہیں کہ ’’المسبحین‘‘ سے مراد ’’المصلین‘‘ ہے کہ حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں جانے سے پہلے بڑی لمبی نماز پڑھتے تھے۔ امام حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ مچھلی کے پیٹ میں یونس علیہ السلام نے نماز شروع کر دی تھی۔ امام قتادہ کے سامنے جب امام حسن رحمہ اللہ کے قول کا ذکر کیا گیا تو اُنھوں نے کہا: نہیں بلکہ وہ پہلے ہی بہ کثرت نمازیں پڑھتے تھے۔ ان کے اسی پہلے سے جاری عمل صالح کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے انھیں نجات عطا فرمائی۔ امام ضحاک بن قیس اور ابو العالیہ رحمہما اللہ وغیرہ نے بھی یہی مفہوم بیان کیا ہے اور امام ابن جریر رحمہ اللہ نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔ اس بارے میں اُنھوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث بھی ذکر کی ہے کہ جب مچھلی کے پیٹ میں اُنھوں
Flag Counter