’’اور اگر یہ نہ ہوتا کہ ہم نے تجھے ثابت قدم رکھا تو بلاشبہہ یقینا تو قریب تھا کہ کچھ تھوڑا سا اُن کی طرف مائل ہو جاتا۔ اس وقت ہم ضرور تجھے زندگی کے دُگنے اور موت کے دُگنے (عذاب) کا مزہ چکھاتے، پھر تو اپنے لیے ہمارے خلاف کوئی مددگار نہ پاتا۔‘‘ زنا بہرحال کبیرہ گناہ ہے، مگر شادی شدہ کا زنا زیادہ بڑا جرم ہے اور اس کی سزا بھی بڑی ہے۔ پڑوسی کی بیوی سے زنا، مجاہد فی سبیل اللہ کی بیوی سے زنا بھی نسبتاً بڑا جرم ہے۔ اسی طرح بوڑھے کا زنا کرنا یا رمضان المبارک میں زنا کرنے کی شناعت بھی بڑی ہے۔ جھوٹی قسم کھانا جرم ہے، مگر مسجد نبوی میں منبرِ نبوی کے پاس جھوٹی قسم کھانا زیادہ بڑا جرم ہے، حتی کہ حرمِ مکہ میں تو الحاد کا ارادہ بھی جرم ہے۔[1] انبیائے کرام علیہم السلام اللہ تعالیٰ کے مقرب ترین بندے ہوتے ہیں، ان کی معمولی سی لغزش بھی بہت بڑی سرزنش اور گرفت کا سبب بن جاتی ہے۔ جیسا کہ یہاں حضرت یونس علیہ السلام کے واقعے سے بھی عیاں ہو رہا ہے۔ ’’حوت‘‘ بڑی (وہیل قسم کی) مچھلی تھی۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ پانی میں تیرتے وقت اپنے نچلے جبڑے کو نیچے لٹکا لیتی ہے اور یوں اس کے تالو اور جبڑے کی پرکشش رنگت ظاہر ہوتی ہے جس سے مسحور ہو کر جان دار خود بخود اس کے حلق میں کھنچے چلے آتے ہیں۔ اس وہیل (عنبرمچھلی) کی جسامت سو، سواسو فٹ تک اور وزن ۱۵۰ ٹن تک بھی ہوتا ہے اور اس کے جبڑے کی لمبائی ۱۹ فٹ ہوتی ہے۔ عہدِ نبوی میں ایک جہاد میں مجاہدین کی خوراک ختم ہو گئی تو اللہ تعالیٰ نے ساحل سمندر پر ایک عنبر مچھلی کے ذریعے ان کی مدد فرمائی۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہمارا قافلہ تین سو افراد پر مشتمل تھا ایک ماہ |