Maktaba Wahhabi

355 - 438
انھیں ’’یونس بن متّٰی‘‘ فرمایا گیا ہے اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا ہے: ’’نسبہ إلی أبیہ‘‘ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ان کے والد کی طرف منسوب کیا ہے۔[1] حافظ ابن حجر نے فرمایا ہے یہی بات درست ہے اور جنھوں نے کہا ہے کہ مَتّٰی ماں کا نام ہے ان کا یہ قول مردود ہے۔[2] علامہ ابن ہشام نے سیرت میں سفر طائف کی تفصیل ذکر کرتے ہوئے لکھاہے کہ عتبہ بن ربیعہ اور شیبہ بن ربیعہ کا غلام عداس انگور لے کر حاضر خدمت ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بسم اللہ پڑھ کر انگور تناول فرمائے۔ عداس نے آپ کے رخ انور کو دیکھا اور کہا اللہ کی قسم اس شہر والے یہ بسم اللہ نہیں پڑھتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عداس! تم کہاں کے رہنے والے ہو اور تمھارا دین کیا ہے؟ عداس نے کہا میں نصرانی ہوں اور نینوا کا رہنے والا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم یونس بن مَتّٰی نیک صالح مرد کے شہر سے ہو۔ عداس نے کہا آپ یونس بن مَتّٰی کو کیسے جانتے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ میرے نبی بھائی ہیں اور میں بھی نبی ہوں۔ عداس نے جھک کر سر مبارک، ہاتھوں اور پاؤں کا بوسہ لیا۔[3] حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس علیہ السلام کو تیس سال کی عمر میں نبی بنا کر ان کی قوم کی طرف بھیجا، ۳۳ سال تک اُنھوں نے قوم کو وعظ و تبلیغ کی مگر صرف دو آدمی مسلمان ہوئے۔[4] ان کی قوم کی تعداد ایک لاکھ سے یقینا زائد تھی جیسا کہ آیندہ آرہاہے۔ ﴿ وَإِنَّ يُونُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ ﴾ اور بلاشبہہ یونس یقینا رسولوں میں سے تھا۔ ان کی عظمت کا اندازہ کیجیے کہ صحیح بخاری وغیرہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے
Flag Counter