اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے جہاں انھیں ’’قوم عادون‘‘ [الشعراء: ۱۶۶] ’’القوم المفسدین‘‘ [العنکبوت: ۳۰] ’’کانوا ظالمین‘‘ [العنکبوت: ۳۱] ’’قوم مسرفون‘‘ [الأعراف: ۸۱] ’’قوم تجھلون‘‘ [النمل: ۵۵] ’’یعملون السیئات‘‘ [ھود: ۷۸] کہا ہے۔ وہاں ’’قومٍ مجرمین‘‘ [الحجر: ۵۸] بھی کہا ہے اور پہلے ہم عرض کر آئے ہیں کہ قرآنِ مجید میں مجرمین کا عموماً اطلاق کفار اور مشرکین پر ہوا ہے۔ واللہ أعلم۔ لوط علیہ السلام نے بہر حال انھیں اس عملِ بد سے روکنے کی کوشش کی، مگر اُنھوں نے ان کی ایک نہ سنی، اس کانتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتے کے ذریعہ سدوم کے سارے علاقے کو، جو پانچ بستیوں پر مشتمل تھا اور ان میں سب سے بڑی بستی کا نام سدوم تھا، تل پٹ کر دیا اور ان پر پتھروں کی بارش برسائی، ہرپتھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نشان زدہ تھا کہ یہ کس مجرم پر پڑنا ہے۔[1] بعض سورتوں میں اس کا اختصار ہے، یہاں بھی اختصار سے اس کا ذکر ہواہے۔ ﴿وَإِنَّ لُوطًا لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ ﴾ حضرت لوط علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ رسول تھے۔ ان کی رسالت اور دعوت کے حوالے سے ایک اور مقام پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوطٍ الْمُرْسَلِينَ (160) إِذْ قَالَ لَهُمْ أَخُوهُمْ لُوطٌ أَلَا تَتَّقُونَ (161) إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ (162) فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ (163)﴾ [الشعراء: ۱۶۳۔ ۱۶۰] ’’لوط کی قوم نے رسولوں کو جھٹلایا۔ جب ان کے بھائی لوط نے ان سے کہا کیا تم ڈرتے نہیں ہو؟ بے شک میں تمھارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں۔ پس اللہ سے ڈرو اور میرا کہا مانو۔‘‘ |