Maktaba Wahhabi

348 - 438
۱۸ کلومیٹر ہے اور گہرائی ۳۷۷ میٹر ہے۔ اس کا پانی دوسرے سمندروں کے پانی سے دس گنا زیادہ کھارا ہے جس کی وجہ سے آبی مخلوق اس میں زندہ نہیں رہ سکتی اس کے کھارا پن کے بارے میں ماہرین آثارِ قدیمہ کا کہنا ہے کہ ایک طویل عرصہ پہلے اس کا سلسلہ بحرِ متوسط سے کٹ گیا تھا۔ دن بدن اس کا پانی کم ہونے کی وجہ سے اس کا کھارا پن بڑھتا گیا۔ عموماً خیال کیا جاتا ہے کہ سدوم اور اس کے مضافات کا علاقہ عذاب کے نتیجے میں سمندر کی شکل اختیار کر گیا اسی بنا پر اسے بحیرۂ میت یا بحیرۂ لوط کہا گیا ہے۔ لیکن کتاب و سنت یا صحیح تاریخی روایات سے اس کی قطعی تعیین ثابت نہیں۔ اس لیے یقینی طورپر نہیں کہا جا سکتا کہ بحیرۂ لوط انھی تباہ شدہ بستیوں کا نام ہے۔ ممکن ہے کہ اس کے ساحل پر یہ بستیاں موجود ہونے کی وجہ سے اس کا نام بحیرۂ لوط پڑ گیا ہو۔ واللہ أعلم۔ لوط علیہ السلام کی یہ قوم راستوں میں ڈاکے ڈالتی، مسافروں کو لوٹتی اور ایک ایسے گھناؤنے جرم کی مرتکب تھی جس کے وہی موجد تھے۔ ان سے پہلے دنیا میں کسی نے اس جرم کاارتکاب نہیں کیا تھا۔ ہم جنس پرستی میں وہ ا س قدر منہمک تھے کہ انھیں اس برائی سے روکنے والوں کاوجود گوارہ نہ تھا وہ بے دھڑک کہتے تھے: ﴿أَخْرِجُوهُمْ مِنْ قَرْيَتِكُمْ إِنَّهُمْ أُنَاسٌ يَتَطَهَّرُونَ ﴾ [الأعراف: ۸۲] ’’انھیں اپنی بستی سے نکال دو، بے شک یہ ایسے لوگ ہیں جوبہت پاک بنتے ہیں۔‘‘ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ یہ قوم مشرک نہیں تھی ان سب کا بڑا گناہ یہی بے حیائی کا ارتکاب تھا۔[1]
Flag Counter