﴿وَإِنَّ لُوطًا لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ (133) إِذْ نَجَّيْنَاهُ وَأَهْلَهُ أَجْمَعِينَ (134) إِلَّا عَجُوزًا فِي الْغَابِرِينَ (135) ثُمَّ دَمَّرْنَا الْآخَرِينَ (136) وَإِنَّكُمْ لَتَمُرُّونَ عَلَيْهِمْ مُصْبِحِينَ (137) وَبِاللَّيْلِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (138) ﴾ [الصّٰفّٰت: ۱۳۸۔ ۱۳۳] ’’اور بلاشبہہ لوط یقینا رسولوں میں سے تھا۔ جب ہم نے اسے اور اس کے سب گھر والوں کو نجات دی۔ سوائے ایک بڑھیا کے جوپیچھے رہ جانے والوں میں سے تھی۔ پھر ہم نے دوسروں کوہلاک کر دیا۔ اور بلاشبہہ تم یقینا صبح جاتے ہوئے ان پر سے گزرتے ہو اور رات کو بھی، تو کیا تم سمجھتے نہیں۔‘‘ یہ انبیائے کرام علیہم السلام کے واقعات میں پانچویں نبی لوط علیہ السلام کاواقعہ ہے۔ حضرت لوط علیہ السلام کاذکر قرآن مجید کی ۱۴ سورتوں میں آیا ہے۔ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھائی ہاران کے بیٹے تھے، گویایہ ابراہیم علیہ السلام کے برادر زادہ تھے۔ ان کا بچپن حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سایۂ عاطفت میں گزرا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ایمان لائے، سفرِ ہجرت میں ان کے ہمراہ تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مشورہ سے شرق ار دن کے علاقے میں چلے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں نبوت سے سرفراز فرمایا تو اسی علاقے کواُنھوں نے اپنی دعوت و تبلیغ کا مرکز بنایا۔ بحیرۂ مردار یا بحیرۂ لوط اُردن فلسطین اور اسرائیل کی سرحد پر واقع ہے۔ اسی بحیرۂ مردار کے قریب لوط علیہ السلام کی قوم مختلف چار بڑے بڑے شہروں میں آباد تھی جس کا صدر مقام ’’سدوم‘‘ تھا۔ یہ علاقہ بڑا سرسبز و شاداب تھا مگر آج اس قوم کا وہاں نام و نشان بھی باقی نہیں۔ بحیرۂ لوط دریا نما بڑی جھیل ہے۔ جس کی لمبائی ۶۷۴ کلومیٹر اور چوڑائی تقریباً |