شامل ہیں تو یہاں ’’یاسین ‘‘ کی آل یعنی حضرت الیاس علیہ السلام مراد ہیں۔ اس میں تو آل کے ساتھ ساتھ ’’یاسین‘‘ کی بھی عظمت ہے۔ جس کی کوئی دلیل نہیں۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ ’’یاسین‘‘ سے مراد سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل و اولاد پر سلام مراد ہے۔ یہ قول حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے۔[1] اور یہ اسی صورت میں ہے جب ’’یاسین‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ہو مگر یہ قولِ ابن عباس رضی اللہ عنہما سخت ضعیف ہے۔ اس کا راوی موسیٰ بن عمیر قرشی کذاب ہے۔[2] علامہ قرطبی رحمہ اللہ نے علامہ سہیلی سے نقل کیا ہے کہ یہ قول کئی اعتبار سے درست نہیں: 1 الیاس علیہ السلام کے واقعہ کا سیاق وہی ہونا چاہیے جو پہلے ابراہیم، نوح اور موسیٰ و ہارون علیہم السلام کے قصہ میں ہے کہ وہاں سلام ان انبیائے کرام علیہم السلام پر ہے، اس سیاق سے نکلنے کے کوئی معنی نہیں جب کہ یہ قول ہی ضعیف ہے۔ یٰسٓ، حٰمٓ، الٓمٓ وغیرہ حروف مقطعات یا تو اللہ تعالیٰ کے ناموں سے ماخوذ ہیں، جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا ہے یا یہ صفاتِ قرآن ہیں یا یہ اللہ تعالیٰ کا راز ہیں۔ 2 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اسمائے مبارکہ کا ذکر کیا ہے اور ان میں یٰسٓ کو ذکر نہیں کیا۔ 3 یٰسٓ کی تلاوت وقف و سکون کے ساتھ ہے یعنی ’’س‘‘ پر کوئی حرکت نہیں۔ اگر یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ہوتا تو ’’ یٰسِیْنُ‘‘ آخر میں پیش کے ساتھ ہوتا، جیسے ’’یوسفُ أیھا الصدیق‘‘ میں ہے۔ اس لیے یہاں ’’یاسین‘‘ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں بلکہ حضرت الیاس علیہ السلام ہی مراد ہیں۔[3] |