Maktaba Wahhabi

342 - 438
پہلے سورت الصّٰفّٰت میں گزرا ہے کہ جنتی اپنے جہنمی ساتھی سے کہے گا: ’’اگر میرے رب کی نعمت نہ ہوتی تو میں بھی ان میں ہوتا جو حاضر کیے گئے ہیں۔‘‘[1] توحید، آیاتِ الٰہی اور قیامت کا انکار عذابِ جہنم کا سبب ہے۔ اور قومِ الیاس علیہ السلام کو اسی انجام سے یہاں خبردار کیا گیا ہے کہ تکذیب کی وجہ سے وہ جہنم میں ضرور حاضر کیے جائیں گے۔ آخرت میں ان کے لیے عذاب کا فیصلہ ہوگا، مگر کیا دنیا میں بھی وہ کسی عذاب میں مبتلا ہوئے یا نہیں؟ اس بارے میں قرآنِ مجید اور احادیثِ مبارکہ میں کوئی وضاحت نہیں۔ بلکہ دوسرے انبیائے کرام علیہم السلام کی طرح کیا حضرت الیاس علیہ السلام کو بھی اپنی قوم کے رد عمل سے سابقہ پڑا یا نہیں؟ اس بارے میں بھی کوئی وضاحت احادیث میں نہیں۔ البتہ علامہ بغوی نے اس بارے میں جو تفصیل ذکر کی ہے، وہ تقریباً تورات سے ماخوذ ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اسرائیل کے بادشاہ ’’اخی اب‘‘ نے صیداد (موجودہ لبنان) کے بادشاہ کی لڑکی سے شادی کی۔ اس مشرکہ لڑکی نے ’’اخی اب‘‘ کو بھی مشرک بنا دیا اس نے سامریہ میں بعل کا مند ر بنوایا اور اسرائیل کے شہروں میں بعل کی پرستش ہونے لگی۔ حضرت الیاس علیہ السلام نے اصلاحِ احوال کی کوشش کی اور اخی اب کو خبردار کیا کہ تمھارے اس کفر و شرک کی پاداش میں تمھارے ملک میں بارش کا ایک قطرہ تو کیا اوس بھی نہیں پڑے گی۔ چنانچہ ساڑھے تین سال تک بارش نہ ہوئی۔ اخی اب نے پریشان ہوکر حضرت الیاس علیہ السلام کو تلاش کیا، حضرت الیاس علیہ السلام ملے تو اُنھوں نے شرک کو بے نقاب کرنے کے لیے یہ طریقہ اپنایا کہ بعل کے پجاری بعل کے نام پر قربانی کریں اور میں
Flag Counter