حسبِ ذیل دوجواب ہیں: 1 ایک یہ کہ ’’تذرون‘‘ کا لفظ اس لیے کہ اُنھوں نے یہ جانتے ہوئے کہ ہمارا اور ہمارے آباء و اجداد کا پروردگار اللہ ہی ہے، محض تکبر کی بنا پر اس کا انکار کیا تھا۔ ’’تدَعون‘‘ علم سے پہلے ترک کے معنی میں ہوتا ہے اور ’’تذرون‘‘ علم کے بعد۔ 2 ’’یدَع‘‘ یہ ’’یذر‘‘ سے اخص ہے یہ اس کے ترک پر ہوتا ہے، جس سے پہلے کوئی تعلق اور اس سے کوئی اعتنا ہو، جیسے کہا جاتا ہے: ’’موادعۃ الاحباب‘‘ (احباب کو چھوڑ دینا) ۔ جب کہ ’’یذر‘‘ میں مطلق چھوڑنا اور کسی سے اعراض کرنا مراد ہے۔ علامہ راغب نے کہا ہے کہ ’’یذر الشیٔ‘‘ کے معنی کسی چیز کو قلت اعتداد کی وجہ سے پھینک دینا ہیں۔ علامہ آلوسی نے فرمایا ہے کہ سیاق کلام میں یہاں ’’تذرون‘‘ ہی زیادہ مناسب ہے کہ بعل کے پجاریوں نے اللہ تعالیٰ کو بالکل ہی چھوڑ دیاتھا، اللہ تعالیٰ سے منہ موڑ کے بعل ہی کے ہورہے تھے۔ ﴿فَكَذَّبُوهُ ﴾ حضرت الیاس علیہ السلام کی اور ان کی دعوتِ توحید کی اُنھوں نے تکذیب کی۔ شرک کی حرمت اور اس کے ارتکاب کے نتیجے میں دائمی عذاب سے جو انھیں خبر دار کیا گیا اس کی بھی اُنھوں نے تکذیب کی۔ اسی جرم کی پاداش میں وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ضرور حاضر کیے جائیں گے۔ عرف عام میں ’’حاضر کیے جانے ‘‘ کا استعمال بُری حالت کے ساتھ خاص ہے اور قرآن مجید میں بھی یہ مجرموں کی جہنم میں بالجبر حاضری کے لیے استعمال ہوا ہے۔ چنانچہ ایک جگہ ارشاد فرمایا: ﴿وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَلِقَاءِ الْآخِرَةِ فَأُولَئِكَ فِي الْعَذَابِ مُحْضَرُونَ ﴾ [الروم: ۱۶] ’’اور رہ گئے وہ جنھوں نے کفر کیا اور ہماری آیات اور آخرت کی ملاقات کو جھٹلایا تو وہ عذاب میں حاضر رکھے جائیں گے۔‘‘ |