’’خلق‘‘کے معنی گو ’’ابداء‘‘ معروف ہیں یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے پید اکرنا۔ یہ صفت خالص اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کی ہے مگر اس کے علاوہ یہ دوسرے معانی میں بھی مستعمل ہے اور یہاں اللہ تعالیٰ پر ’’احسن الخالقین‘‘ کا اطلاق کفار کے اعتقاد کے اعتبار سے ہے ان کا خیال تھا کہ ہمارے معبود بھی پیدا کرتے ہیں ان کے اعتقاد کے تناظر میں کہا گیا ہے کہ سب سے بہتر پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے۔[1] اس کا دوسرا جواب یہ ہے کہ ’’خلق‘‘ کے معنی کسی چیز کو بنانے کے لیے پوری طرح اندازہ لگانے کے بھی ہیں اس لیے یہاں ’’احسن الخالقین‘‘ سے مراد ’’احسن المقدرین‘‘ ہے یعنی اللہ تعالیٰ سب سے بہتر اندازہ کرنے والا ہے۔[2] اس کا ایک تیسرا جواب یہ بھی کہ ’’خالق‘‘ بمعنی صانع وموجد (یعنی بنانے والا) بھی مستعمل ہے جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ہے: ﴿وَإِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ ﴾ [المائدۃ: ۱۱۰] ’’اور جب تُو مٹی سے پرندے کی شکل کی مانند بناتا تھا۔‘‘ لہٰذا یہاں ’’احسن الخالقین‘‘ کے معنی ہیں کہ تمام صنّاعوں اور کاری گروں سے بڑا صانع۔ دوسرے کاری گر تو مختلف اجزاء کو باہم جوڑ کر کوئی چیز بناتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کسی چیز کے بنانے میں اجزاء کا محتاج نہیں وہ معدوم کو وجود بخشتا ہے اور کلمہ’’کن‘‘ سے جو چاہے بنادیتا ہے۔ ﴿تَذَرُونَ ﴾ یہ ’’وذر‘‘ سے جمع مذکر حاضر کا صیغۂ مضارع ہے اور ’’وذر‘‘ کے معنی چھوڑنا، دست کش ہونا ہے۔ چھوڑنے کے لیے قرآن مجید میں عموماً ’’تدَعون‘‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے اس کی بجائے یہاں ’’تذرون‘‘ کا لفظ کیوں آیا ہے، علامہ آلوسی نے اس کے مختلف نو(۹) جوابات نقل کیے ہیں مگر ان میں زیادہ مناسب |