﴿وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ سُلَالَةٍ مِنْ طِينٍ (12) ثُمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَةً فِي قَرَارٍ مَكِينٍ (13) ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ أَنْشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ (14) ﴾ [المؤمنون: ۱۴۔ ۱۲] ’’اور بلاشبہہ یقینا ہم نے انسان کو حقیر مٹی کے ایک خلاصے سے پیدا کیا۔ پھر ہم نے اسے ایک قطرہ بنا کر ایک محفوظ ٹھکانے میں رکھا۔ پھر ہم نے اس قطرے کو ایک جما ہوا خون بنایا، پھر ہم نے اس جمے ہوئے خون کو ایک بوٹی بنایا، پھر ہم نے اس بوٹی کو ہڈیاں بنایا، پھر ہم نے ان ہڈیوں کو کچھ گوشت پہنایا، پھر ہم نے اسے ایک اور صورت میں پیدا کر دیا، سو بہت برکت والا ہے اللہ جو پیدا کرنے والوں میں سب سے اچھا ہے۔‘‘ اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کو ﴿أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ ﴾ [التین: ۴] یعنی بہترین شکل و صورت میں پیدا کیا اور ﴿وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ ﴾ [التغابن: ۳] (اور تمھاری صورت بنائی تو تمھاری صورتیں اچھی بنائیں) کے اعزاز سے نوازا ہے جو اپنے قدو قامت اور حسن و جمال کے اعتبار سے قدرت کا شاہکار ہے۔ ایسے احسن الخالقین کو چھوڑ کر تم بت کے پجاری بنے ہوئے ہو جو کچھ بھی بنانے پر قادر نہیں ہے۔ پھر وہ تمھارا خالق ہی نہیں رب بھی ہے، تمھارے آباء و اجداد کا بھی وہی رب ہے۔ اسی نے تمھیں پروان چڑھایا اسی نے پرورش کی اور تمھاری تمام ضروریات کا انتظام کیا۔ ایسے پروردگار کو چھوڑ کر ’’بعل‘‘ کی پرستش میں کیا معقولیت ہے جسے تمھاری تخلیق اور پرورش میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ ﴿أَحْسَنَ الْخَالِقِينَ ﴾ ’’پیدا کرنے والوں میں سب سے اچھا۔‘‘ کے یہ معنی قطعاً نہیں کہ (معاذ اللہ) کوئی اور بھی خالق ہے۔ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ |