نے اس سے ایک ہی روایت لی ہے اور اسے بھی معلول قرار دیا ہے۔[1] ﴿أَتَدْعُونَ بَعْلًا ﴾ حضرت الیاس علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا: تم اللہ سے ڈرتے نہیں ہو؟ کیا تم بعل کو پکارتے ہو اور احسن الخالقین کو چھوڑ دیتے ہو؟ وہ جو تمھارا رب ہے اور تمھارے باپ دادا کارب ہے۔ ’’بعل‘‘ کے لغوی معنی ہیں: بلند زمین، ہر بڑا درخت جو اپنی جڑوں کے ذریعہ از خود زمین سے پانی جذب کر لے، شہد کی مکھیوں کا سردار، مالک۔ شوہر کے معنی میں بھی قرآن مجید میں کئی بار یہ لفظ آیا ہے۔ بلکہ ہر اُس چیز پر بعل کا اطلاق ہوتا ہے جو دوسری اشیا پر فوقیت رکھتی ہو۔ بت کو بعل اس لیے کہتے تھے کہ اس کے ذریعے وہ اللہ کا تقرب حاصل کرنا چاہتے تھے اور اسے بلند و برتر سمجھتے تھے۔[2] لغتِ یمن میں یہ لفظ ’’رب‘‘ کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ کہاجاتا ہے: ’’من بعل ہذا الدار؟‘‘ (اس گھر کا مالک کون ہے؟) اسی معنی میں خاوند کو بعل کہا گیا ہے۔[3] لبنان، شام اور فلسطین میں ’’بعل‘‘ کی پرستش ہوتی تھی۔ یہ بت سونے کا تھا جس کی بلندی بیس (۲۰) ہاتھ تھی۔ اس کے چار منہ تھے اوراس کے چار سو خدام تھے۔ لبنان و شام میں مشہور تاریخی شہر ’’بعلبک‘‘ اسی بت کے نام پر آباد تھا۔ شیطان اس بت میں داخل ہو کر لوگوں کی گمراہی کی باتیں کرتا تھا۔[4] ﴿وَتَذَرُونَ أَحْسَنَ الْخَالِقِينَ ﴾ اور تم ’’احسن الخالقین ‘‘ کو چھوڑ دیتے ہو۔ وہ خالق ہی نہیں بلکہ بہترین خالق ہے اور وہ اللہ رب العزت ہے۔ سورۃ المؤ منون میں ہے: |