Maktaba Wahhabi

337 - 438
میں نے باغ سے باہر لوگوں سے اس کے بارے دریافت کیا تو اُنھوں نے کہا یہاں ایسا کوئی شخص ہم نے نہیں دیکھا ان کا گمان تھا کہ وہ شخص حضرت الیاس کے علاوہ اور کوئی نہیں ہو سکتا۔[1] حافظ ابن کثیر نے جو اسے ’’احسن‘‘ قرار دیا ہے تو اس کے یہ معنی قطعاً نہیں کہ یہ ’’حسن‘‘ ہے بلکہ اس حوالے سے جو روایات و آثار ہیں ان میں یہ ’’احسن‘‘ ہے۔ علامہ نووی نے فرمایا ہے کہ ’’أصح الشیٔ في الباب‘‘ کہنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ حدیث صحیح ہے اس قسم کا قول محدثین ضعیف حدیث پر بھی بولتے ہیں اور اس سے ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ یہ دوسری روایات سے راجح ہے یا اس میں ضعف کم ہے۔[2] یہاں بھی حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے دوسری موضوع اور اسرائیلی روایات کے تناظر میں اسے احسن کہا ہے یوں نہیں کہ وہ حسن اور قابل اعتبار ہے۔ کیوں کہ اس کا راوی حما د بن واقد ضعیف ہے۔ امام ابن معین نے اسے ضعیف، امام بخاری نے منکر الحدیث، امام عمرو بن علی نے کثیر الخطا،کثیر الوہم، امام ترمذی نے لیس بالحافظ، امام ابو زرعہ نے لین الحدیث امام ابو حاتم نے لیس بقوی، امام ابن حبان نے ’’لا یجوز الاحتجاج بخبرہ إذا انفرد‘‘ (جب وہ منفرد ہو اس کی روایت سے استدلال درست نہیں) کہا ہے۔ ابو احمد حاکم نے لیس بالقوی کہا ہے اور امام ابن عدی فرماتے ہیں اس کی اکثر روایات کی ثقات متابعت نہیں کرتے۔[3] اس لیے ایسے راوی کی روایت کو حسن کیوں کر قرار دیا جا سکتا ہے! امام ترمذی
Flag Counter