یہ روایت حضرت واثلہ بن اسقع سے بھی مروی ہے مگر یہ بھی موضوع ہے۔[1] امام ابن عساکر نے اسے منکر قرار دیا ہے۔[2] اسی نوعیت کے دیگر اقوال جن میں حضرت الیاس کے زندہ ہونے کا ذکر ہے کوئی بھی کسی قابلِ اعتبار سند سے منقول نہیں حافظ ابن کثیر نے کہا ہے کہ یہ اسرائیلی روایات ہیں اور ان کی صحت بہت دور کی بات ہے۔ [3] انہی آثار میں سے ایک وہ بھی ہے جسے امام ابن ابی الدنیا کے حوالے سے حافظ ابنِ کثیر نے نقل کیا ہے اور اسے ’’ومن أحسنھا‘‘ (ان سے سب سے بہتر) قرار دیا ہے۔ چنانچہ ثابت بیان کرتے ہیں کہ ہم مصعب بن زبیر کے ساتھ کوفہ کے مضافات میں تھے، میں ایک باغ میں داخل ہوا اور دو رکعت نماز پڑھی۔ میں نے ان میں سورۃ المومن کی یہ آیات پڑھیں: ﴿حم (1) تَنْزِيلُ الْكِتَابِ مِنَ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ (2) غَافِرِ الذَّنْبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِيدِ الْعِقَابِ ذِي الطَّوْلِ ﴾ میرے پیچھے ایک شخص سرخ خچر پر سوار تھا اس نے یمنی لباس پہنا ہوا تھا اس نے کہا جب تم ’’غافر الذنب‘‘ پڑھو تو یوں کہو: ’’یا غافر الذنب اغفرلی ذنبي‘‘ (اے گناہ بخشنے والے! میرے گناہ بخش دے) اور جب تم پڑھو ’’قابل التوب‘‘ تو یوں کہو ’’یا قابل التوب تقبل توبتي‘‘ (اے توبہ قبول کرنے والے! میری توبہ قبول فرما) اور جب تم پڑھو ’’شدید العقاب‘‘ تو یوں کہو ’’یا شدید العقاب لا تعاقبني‘‘ (اے سخت سزا دینے والے! مجھے سزا نہ دے) جب تم پڑھو: ’’ذی الطول‘‘ تو کہو: ’’یا ذا الطول تطول علي برحمۃ‘‘ ( اے بڑے فضل والے! اپنی رحمت سے مجھ پر فضل فرما) میں نے مڑ کر دیکھا تو وہاں کوئی نہ تھا۔ |