Maktaba Wahhabi

333 - 438
یوحنا بپتسمہ دینے والے کے بارے میں ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: ’’ایلیا جو آنے والا تھا یہی ہے جس کے سننے کے کان ہوں وہ سن لے۔‘‘[1] اس کے برعکس تورات میں ایلیاہ کا ذکر ہے اور اس سے مراد یہی حضرت الیاس علیہ السلام معلوم ہوتے ہیں۔ تورات میں ان کا تفصیلاً ذکر ہے۔[2] انہی کے بارے میں یہودیوں میں یہ بات تھی کہ وہ ایک بگولے میں آسمان پر زندہ اُٹھا لیے گئے تھے۔[3] اوریہ بھی کہ وہ دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے جیسا کہ بائبل میں ہے۔[4] حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور بعض دیگر حضرات کا خیال ہے کہ حضرت الیاس، حضرت ادریس ہی ہیں گویا یہ ایک نبی کے دو نام ہیں۔ مگر حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’والصحیح أنہ غیرہ‘‘[5] ’’صحیح یہ ہے کہ وہ حضرت ادریس علیہ السلام کے علاوہ اور نبی ہیں۔‘‘ حضرت ادریس علیہ السلام کا دور تو حضرت نوح علیہ السلام سے بھی پہلے ہے بلکہ وہ ان کے پردادا ہیں۔[6] اور حضرت شیث علیہ السلام کے بعد پہلے نبی ہیں۔[7] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ سورۃ الانعام (آیت: ۸۴، ۸۵) میں حضرت نوح علیہ السلام کی ذرّیت میں حضرت الیاس کا ذکر ہوا ہے۔[8] اس لیے وہ ادریس علیہ السلام نہیں ہو سکتے ہیں، جنھیں حضرت نوح علیہ السلام کا جدِّا علیٰ کہا گیا ہے۔ امام حاکم رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت ادریس علیہ السلام کے
Flag Counter