مابین ایک ہزار سال کا فرق ہے۔ البتہ علامہ ابو بکر ابن العربی نے کہا ہے کہ حضرت ادریس علیہ السلام حضرت نوح علیہ السلام کے اجداد میں سے نہیں بلکہ انبیائے بنی اسرائیل میں سے تھے۔ اُنھوں نے اس حوالے سے حدیث معراج سے استدلال کیا ہے کہ اُنھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’مرحبا بالنبي الصالح والأخ الصالح‘‘ کے الفاظ سے مخاطب کیا تھا، اگر وہ حضرت نوح علیہ السلام سے پہلے ہوتے تو حضرت آدم اور حضرت ابراہیم علیہما السلام کی طرح وہ بھی آپ کا استقبال ’’مرحباً بالنبي الصالح و ابن الصالح‘‘ کے الفاظ سے کرتے۔ علامہ سہیلی نے اپنے استاد امام ابوبکر ابن العربی کے اس موقف کی تحسین کی ہے۔[1] مگر یہ استدلال درست نہیں کیوں کہ احتمال ہے اُنھوں نے ایسا تواضع اور تلطف کے طور پر کیا ہو۔[2] علامہ ابنِ کثیر نے بھی یہی جواب دیا ہے بلکہ یہ بھی فرمایا ہے کہ ممکن ہے کہ راوی کو اچھی طرح یاد نہ رہا ہو۔ دوسرے انبیا کی طرح ان سے بھی ’’الأخ الصالح‘‘ نقل کر دیا ہو۔[3] علامہ ابن العربی کے مطابق قرآن پاک میں حضرت الیاس اور حضرت ادریس علیہما السلام کا تذکرہ علاحدہ علاحدہ ناموں سے ہے اس لیے دونوں کو ایک نبی قرار دینا درست نہیں۔ قاضی عیاض نے بھی اس سے یہی استدلال کیا ہے کہ حضرت ادریس علیہ السلام بنی اسرائیل کے انبیا میں سے ہیں، مگر علامہ نووی رحمہ اللہ نے ان کی تردید کی ہے کہ حضرت ادریس نے تلطفاً اور تادباً ’’الاخ الصالح‘‘ کہا تھا کہ آپ بھائی ہیں انبیا اور سب مومن باہم بھائی ہیں۔[4] |