﴿ وَإِنَّ إِلْيَاسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ (123) إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ أَلَا تَتَّقُونَ (124) أَتَدْعُونَ بَعْلًا وَتَذَرُونَ أَحْسَنَ الْخَالِقِينَ (125) اللَّهَ رَبَّكُمْ وَرَبَّ آبَائِكُمُ الْأَوَّلِينَ (126) فَكَذَّبُوهُ فَإِنَّهُمْ لَمُحْضَرُونَ (127) إِلَّا عِبَادَ اللَّهِ الْمُخْلَصِينَ (128) وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْآخِرِينَ (129) سَلَامٌ عَلَى إِلْ يَاسِينَ (130) إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ (131) إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِينَ(132)﴾[الصّٰفّٰت: ۱۳۲۔ ۱۲۳] ’’اور بلاشبہہ الیاس یقینا رسولوں میں سے تھا۔ جب اس نے اپنی قوم سے کہا کیا تم ڈرتے نہیں؟ کیا تم بعل کو پکارتے ہو اور بنانے والوں میں سے سب سے بہتر کو چھوڑ دیتے ہو؟ اللہ کو جو تمھارا رب ہے اور تمھارے پہلے باپ دادا کا رب ہے۔ تو اُنھوں نے اسے جھٹلادیا، سو یقینا وہ ضرور حاضر کیے جانے والے ہیں۔ مگر اللہ کے وہ بندے جو چنے ہوئے ہیں۔ اور ہم نے پیچھے آنے والوں میں اس کے لیے یہ بات چھوڑ دی کہ سلام ہو الیاسین پر۔ بے شک ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں۔ یقینا وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھا۔‘‘ پہلے علی الترتیب تین اولو العزم انبیائے کرام علیہم السلام کے کارناموں اور ان کے نتیجے میں ان پر اللہ تعالیٰ کے انعام و اکرام کا ذکر ہوا ہے، اب یہاں سے تین اور انبیائے کرام علیہم السلام کا اجمالاً ذکر ہے۔ اور وہ ہیں حضرت الیاس، حضرت لوط اور حضرت یونس علیہم السلام ۔ مگر یہاں ان کا ذکر پہلے تین انبیائے کرام علیہم السلام کی طرح ترتیب زمانی کے لحاظ سے نہیں۔ حضرت الیاس علیہ السلام کا زمانہ تقریباً ۸۷۵ ق م یا ۸۵۰ ق م کے مابین |