Maktaba Wahhabi

329 - 438
حضرت ہارون علیہ السلام صراط مستقیم پر تھے۔ صراط مستقیم کی راہ توحید کی راہ ہے۔ شرک کی نہیں۔ اس سے مراد دین حق اور دین کے وہ بنیادی احکام اور اُصول و ضوابط ہیں جن پر تمام شرائع کا اتفاق رہا ہے، جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ ﴾ [الشوریٰ: ۱۳] ’’اس نے تمھارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا جس کا تاکیدی حکم اس نے نوح کو دیا اور جس کی وحی ہم نے تیری طرف کی اور جس کا تاکیدی حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا، یہ کہ اس دین کو قائم رکھو اور اس میں جداجدا نہ ہوجاؤ۔‘‘ دین کے انھی بنیادی اُمور کے حوالے سے فرمایا گیا ہے: ﴿ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ وَذَلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ ﴾ [البینۃ: ۵] ’’اور انھیں اس کے سوا حکم نہیں دیا گیا کہ وہ اللہ کی عبادت کریں، اس حال میں کہ اس کے لیے دین کو خالص کرنے والے، ایک طرف ہونے والے ہوں اور نما زقائم کریں اور زکات دیں اور یہی مضبوط ملت کا دین ہے۔‘‘ پہلی اُمتوں میں نماز اور زکات کے جزوی مسائل میں اختلاف کے باوجود ان اُمور کا اسی طرح سب کو حکم تھا جیسے توحید اور اللہ تعالیٰ کے لیے خالص اور یک سُو ہو جانے کا حکم تھا۔ حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام اسی ’’دینِ قیم‘‘ اور اسی صراطِ مستقیم کے داعی تھے۔ ﴿ وَتَرَكْنَا عَلَيْهِمَا فِي الْآخِرِينَ ﴾ یہ اور اس کے بعد کی تینوں آیات وہی ہیں
Flag Counter