ہوئے کیا تھا۔ جیسا کہ سورۃ القصص میں ہے۔[1] اللہ کا وعدہ بہر حال سچا ہوتا ہے جیسے فرمایا تھا ویسے ہی ہوا۔ یہ قصص جہاں باعث عبرت و موعظت ہیں وہاں ان میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تسلی و تشفی کا پہلو بھی ہے۔ یہاں اس واقعہ میں یہ دونوں پہلو ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کی طرح کا میابی اور غلبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ کے ساتھیوں کو ہی حاصل ہوگا۔ اور ایک دن کفار کا غرور فرعون کی طرح خاک میں مل جائے گا۔ ﴿ وَآتَيْنَاهُمَا الْكِتَابَ الْمُسْتَبِينَ ﴾ اور ہم نے ان دونوں کو نہایت واضح کتاب دی۔ کتاب سے مراد تورات ہے۔ جس کی یہاں صفت ’’المستبین‘‘ بیان ہوئی ہے۔ اس کا مصدر ’’استبانۃ‘‘ ہے اور مادہ ’’بین ‘‘ جس کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط ہیں، محاورہ میں کہا جاتا ہے: ’’بان کذا‘‘ یعنی کسی چیز کا الگ ہو جانا اور جو کچھ اس سے پوشیدہ ہو، اس کا ظاہر ہو جانا۔ اس لیے ’’بان، استبان، تبین‘‘ کے معنی ظاہر اور واضح ہو جانے کے ہیں۔[2] بلکہ ’’س‘‘ اور ’’ت‘‘ مبالغہ کے لیے ہے۔ کہا جاتا ہے: ’’استبان الشیْء‘‘ تو اس کے معنی ہیں کہ وہ چیز خوب واضح ہو گئی۔ قرآن مجید میں ہے: ﴿ وَكَذَلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ وَلِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ ﴾ [الأنعام: ۵۵] ’’اور اسی طرح ہم آیات کو کھول کر بیان کرتے ہیں اور تاکہ مجرموں کا راستہ خوب واضح ہو جائے۔‘‘ ’’الکتٰب المستبین‘‘ کے معنی ہوئے نہایت واضح کتاب۔ یا احکام الٰہی کو خوب واضح کر دینے والی کتاب۔ یہاں تورات دینے کے حوالے سے دونوں کا ذکر ہوا ہے کہ ہم نے دونوں کو کتاب دی۔ حالانکہ تورات حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی |